کراچی: رینجرز نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ انھوں نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی غلام قادر مری کو گرفتار نہیں کیا ہے، جو 7 اپریل سے لاپتہ ہیں۔

جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی ڈویژنل بینچ نے غلام قادر مری کے بھائی اسماعیل مری کی پٹیشن پر سماعت کی، جس میں انھوں دو ہفتے قبل لاپتہ ہونے والے اپنے بھائی اور دیگر 3 افراد کی بازیابی کی درخواست کی تھی۔

پٹیشن پر اپنے جواب میں پیرا ملٹری فورسز نے جج کو بتایا کہ غلام قادر مری اور ان کے دیگر 3 ساتھیوں کو نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور ہی وہ ان کی حراست میں ہیں۔

جس کے بعد عدالت نے متعلقہ انتظامیہ کو لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کی لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ کی تاریخ کیلئے ملتوی کردی، یہ تاریخ کورٹ آفس کی جانب سے مختص کی جائے گی۔

یاد رہے کہ غلام قادر مری کی گاڑی 7 اپریل کو جامشورو کے تھرمل پاور اسٹیشن کے قریب لاوارث حالت میں ملی تھی۔

اسماعیل مری کی جانب سے پٹیشن ان کے وکیل ایڈووکیٹ شہاب سرکی نے دائر کی تھی، انھوں نے عدالت سے کہا تھا کہ انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ ان کے موکل کے بھائی کو کسی بھی عدالت میں پیش کردیں جبکہ ان کے اہل خانہ کو ان کے خلاف دائر مقدمہ کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا جارہا۔

انھوں نے عدالت سے کہا کہ تھا کہ اگر حراست میں لیے گئے افراد کسی کیس میں ملوث نہیں ہیں تو انھیں رہا کیا جائے۔

شرمیلا فاروقی کیس

بعد ازاں، جسٹس ظفر احمد راجپوت کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پی پی پی کی رکن صوبائی اسمبلی شرمیلا فاروقی کی پٹیشن چیف جسٹس کو ریفر کردی، یہ پٹیشن انھوں نے قومی احتساب بیورو کے خلاف دائر کی تھی کیونکہ ادارے نے انھیں عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سندھ اسمبلی سے شرمیلا فاروقی کو نااہل قرار دینے کی تحریری درخواست کی تھی۔

شرمیلا فاروقی کے وکیل کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کیے جانے کے بعد کہ مذکورہ پٹیشن کی سماعت اس سے قبل ایک علیحدہ بینچ نے کی تھی لہذا اسے اسی بینچ کو واپس بھیج دیا جائے جس پر بینچ نے یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا۔

اس سے قبل دو رکنی بینچ نے ای سی پی، نیب اور دیگر کو شرمیلا فاروقی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا تھا۔

ان کے وکیل نے ایک جواب جمع کرایا تھا کہ احتساب ایکٹ کی دفعہ 9 اور 17 کے تحت اگر کوئی شخص پلی بارگین کا آغاز کردیتا ہے تو ایسے وزارت سے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

وکیل نے زور دیا کہ 'کسی بھی حالات میں قومی احتساب آرڈینس 1999 کی دفعہ 15، جس کے مطابق عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیئے جانے والے شخص کو عوامی نمائندے کا عہدہ رکھنے کیلئے 21 سال کیلئے نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے، ان کے موکل کے کیس میں اس پر اپیل کی جاسکتی ہے'۔

نیب پروسیکیورٹر نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ جب شرمیلا فاروقی کو احتساب عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیا گیا تھا تو ان کے پاس کسی وزارت کا قلمدان موجود نہیں تھا۔

انھوں نے کہا تھا کہ شرمیلا فاروقی، ان کی والدہ انیسہ فاروقی اور والد عثمان فاروقی قومی احتساب عدالت کے فیصلے کے مطابق 21 سال کیلئے نااہل قرار پائے ہیں، یہ فیصلہ 28 اپریل 2001 کو قومی احتساب آرڈینس کی دفعہ 15 کے تحت سنایا گیا تھا۔

شرمیلا فاروقی نے اپنی پٹیشن میں کہا تھا کہ نیب نے ان کے والد، جو پاکستان اسٹیل کے سابق چیئرمین ہیں، والدہ اور ان کے خلاف قومی بجت اسکیموں میں بھاری سرمایہ کاری کرنے پر مذکورہ رقم کے ذرائع معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ریفرنس دائر کیا تھا۔

تاہم انھوں نے نیب سے پلی بارگین کا آغاز کیا جس کی اجازت متعلقہ عدالت نے 2001 میں دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2016 میں نیب نے ای سی پی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر اداروں کو انھیں نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ رپورٹ 22 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 22, 2017 05:56pm
السلام علیکم: پاکستان اسٹیل کے سابق چیئرمین نے قومی بچت اسکیموں میں بھاری سرمایہ کاری کی تھی، مذکورہ رقم کے ذرائع معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف نیب نے ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ اگر انھوں نے نیب سے پلی بارگین کی تھی تو ان کی موجودہ وفاقی محتسب اعلیٰ کی حیثیت سے تعیناتی پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ خیرخواہ