کراچی: ڈانڈیا بازار کے تاجروں نے رات 11 بجے کے بعد سے ٹرک اور مال بردارکنٹینرز کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے باعث شہر میں ضروری اشیا کی ممکنہ قلت اور قیمتوں میں اضافے کے خدشے کا اظہار کردیا۔

چیئر مین کراچی ہول سیلرز گروسرز ایسو سی ایشن(کے ڈبلیو جی اے) انیس مجید کا کہنا تھا کہ دو روز قبل ہم نے چیف سیکریٹری سندھ اور کمشنر کراچی کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ انتظامیہ اس صورت حال کا نوٹس لے ورنہ شہر کو ضروری اشیا کی کمی کے ساتھ ساتھ چینی کی قیمتوں میں اضافے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں مرغی کا گوشت 400 روپے کلو فروخت ہوگا

انھوں نے حکام پر زور دیا کہ ضروری اشیا سے لدے ہوئے ٹرک اور کنٹینرز کو شہرمیں داخلے سے نہ روکا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اندرون سندھ سے چینی کی آمد میں کمی کے باعث ہول سیلرز کو پہلے سے ہی چینی کی قلت کا سامنا شروع ہوچکا ہے۔

رمضان المبارک کی آمد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رمضان کا مہینہ مئی کے آخری ہفتے میں شروع ہونے والا ہے اور اشیا خوردو نوش کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر ریٹیلرز تمام اشیا کو ہول سیل مارکیٹ سے اٹھانا شروع کردیا ہے۔

ڈانڈیا بازار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ بازار کراچی شہر میں اشیا خورد ونوش کا سب سے بڑا مرکز ہے، ان اشیا میں گندم، آٹا، چینی، دالیں، چاول اور دوسری اشیا شامل ہیں جو ملک کے بیشتر حصوں خصوصا سندھ اور پنجاب سے یہاں آتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کی ہڑتال، کراچی میں پیٹرول نایاب

اس کے علاوہ برآمد شدہ اشیا بھی کراچی بندرگاہ سے بلا واسطہ اس ہی مارکیٹ میں پہنچتی ہیں۔

فصل کے موسم کے مطابق ڈانڈیا بازار میں روزانہ تقریباً 50 سے 100 ٹرک مختلف اشیا آٹا، چاول، گندم، چینی لے کر آتے ہیں، ان اشیا کی فی ٹن قیمت اوسطاً 500 امریکی ڈالر ہوتی ہے۔

پاکستان بیورو شماریات ( پی بی ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2016 سے فروری 2017 تک دالوں کی برآمدات میں 50 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جو کہ پچھلے مالی سال کے 400 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 599 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔

پاکستان میں چینی کی پیداوار میں 24 فیصد تک اضافہ ہوا، جو کہ پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 3.52 ملین ٹن سے بڑھ کر 4.4 ملین ٹن تک جا پہنچا ہے۔


یہ خبر 23 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 23, 2017 06:43pm
السلام علیکم: بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کراچی کے تمام ہول سیل بازاروں کے لیے سپر ہائی وے پر جگہ محتص کردی گئی ہے ، مگر پرویز مشرف کے دور میں سوائے سبزی منڈی کے، سپر ہائی وے پر اب تک کسی قسم کی مارکیٹ نہیں بنائی گئی، اگر یہ عمل جاری رہتا تو کرچی کی گنجان ترین علاقوں میں قائم منڈیاں آسانی سے منتقل کی جاسکتی تھی، اب تو شاید یہ لگتا ہے کہ ان منڈیوں کی زمین یا تو بحریہ ٹاؤن یا پھر ڈی ایچ اے فیز نائن کے کے قبضے میں ہیں۔۔۔۔ تاہم اگر کراچی کے ہول سیل تاجر ہمت کریں تو ان کو سپر ہائی پر منتقل کردیا جائے ا ور ان کی رہائش کا بھی بندوبست کیا جائے۔۔۔ ان سے واپس حاصل کردہ زمین اور بلڈنگز کو حکومت تحویل میں لے کر رہائشی منصوبوں کے بجائے رفاہ عامہ ، پارکوں، اسپتالوں، مساجد، اسکولوں، کالجوں، پارکنگ پلازہ، فائر بریگیڈ کے لیے استعمال کیا جائے جیسے پرانی سبزی منڈی سے عسکری پارک بنادیا گیا تھا۔ خیرخواہ