افغانستان کے صوبے خوست میں امریکی فوجی اڈے کے قریب بم دھماکا ہوا جس میں ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

افغان خبر رساں ادارے خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق دھماکا افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے خوست میں ایک فوجی اڈے کے قریب ہوا۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکا خود کش کار بم کے ذریعے گیا جب کہ وزارت داخلہ نے بھی دھماکے کی تصدیق کردی ہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا کہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق تقریباً ایک بجے کے قریب سنا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 100 فوجیوں کی ہلاکت: افغان آرمی چیف، وزیردفاع عہدے سے مستعفی

انہوں نے کہا کہ تاحال دھماکے سے ہونے والے نقصان سے متعلق اطلاعات موجود نہیں ہیں اور ریسکیو ٹیمیں جائے وقوع کی جانب روانہ ہوگئیں ہیں۔

کسی تنظیم کی جانب سے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق دھماکا صوبہ خوست میں موجود امریکی فوجی اڈے کے قریب کیا گیا۔

صوبائی گورنر کے ترجمان مباریز محمد زردان نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ایک کار کو کیمپ چیپمین کے داخلی دروازے سے ٹکرایا تاہم انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کیمپ چیپمین ایک خفیہ تنصیب ہے جہاں امریکی فورسز اور پرائیوٹ ملٹری کنٹریکٹرز تعینات ہوتے ہیں البتہ انہیں اس سے زیادہ معلومات فراہم کرنے کی اجازت نہیں۔

افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان کیپٹن ولیم سالون نے بھی دھماکے کی تصدیق کی اور کہا کہ ہوسکتا ہے افغان باشندے ہلاک یا زخمی ہوئے ہوں لیکن امریکی و اتحادی افواج کے کسی اہلکار کو نقصان نہیں پہنچا۔

یہ دھماکا ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب امریکی وزیر دفاع جم میٹس غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان میں موجود ہیں جبکہ یہ ان کا پہلا دورہ افغانستان ہے۔

جم میٹس افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کریں گے اور یہ افغانستان میں امریکا کی جانب سے سب سے بڑے غیر جوہری بم گرائے جانے کے بعد اہم دورہ سمجھا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ پیر کو افغان آرمی چیف جنرل قدم شاہ شاہم اور وزیر دفاع عبداللہ خان حبیبی نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

ان دونوں عہدے داروں نے 21 اپریل کو شمالی افغانستان میں صوبہ بَلخ کے دارالحکومت مزار شریف کے مضافات میں قائم فوجی اڈے میں ہونے والے طالبان کے حملے میں 100 سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کے بعد عہدے سے استعفیٰ دیا۔

اس واقعے کے بعد آرمی چیف اور وزیر دفاع پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔

مزید پڑھیں: طالبان کے حملے میں 100 سے زائد افغان فوجی ہلاک و زخمی

یاد رہے کہ اس سے قبل مارچ کے اوائل میں بھی کابل کے مرکزی ملٹری ہسپتال پر حملہ کیا گیا تھا جو کئی گھنٹے تک جاری رہا تھا۔

حکام کا کہنا تھا کہ اس حملے میں تقریباً 50 افراد ہلاک ہوئے، تاہم باوثق ذرائع کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے دو گنا سے بھی زائد تھی۔

اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔


تبصرے (0) بند ہیں