حال ہی میں ہونے والے ایک سروے کے نتائج کے مطابق پاکستان میں تقریباً 50 فیصد ’ابھرتے ہوئے دولتمند‘ افراد گھر پر ہی پیسے جمع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں صرف 15 فیصد بھارتی شہری ایسی سوچ رکھتے ہیں۔

خودمختار ریسرچ ایجنسی گلوب اسکین اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک(ایس سی بی) کی جانب سے 8 ممالک میں کیے جانے والے سروے کے مطابق فوری ضرورت پڑنے پر رقم تک رسائی، خطرات سے بچنے اور سرمایہ کاری کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھر پر ہی پیسے رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

تحقیق میں چین، ہانگ کانگ، انڈیا، کینیا، کوریا، تائیوان، سنگاپور اور پاکستان کے 25 تا 55 برس تک کے 8 ہزار ایسے افراد کی بچت کی عادات کا جائزہ لیا گیا جن کی مالی حالت بہتری کی جانب گامزن ہے۔

اس سلسلے میں ایس سی بی کے ہیڈ آف سیگمنٹس ارسلان خان نے کہا کہ پاکستان سے متعلق سروے میں جو نتائج شامل کیے گئے ہیں وہ گزشتہ برس نومبر تا دسمبر میں ایک ہزار پاکستانی شہریوں سے رو برو انٹرویوز کے بعد مرتب کیے گئے۔

مزید پڑھیں: اپنا آن لائن کاروبار کیسے شروع کیا جائے؟

انہوں نے بتایا کہ انٹرویو میں شامل ہر پاکستانی گریجویٹ تھا اور ماہانہ 40 تا 50 ہزار روپے کماتا تھا جبکہ معیار زندگی اور اخراجات کے اعتبار سے اے یا بی معاشی و معاشرتی طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔

پاکستانیوں میں پیسے گھر میں رکھنے کا رجحان سے سے زیادہ پایا گیا جبکہ اس کے علاوہ 38 فیصد پاکستانی ایسے پائے گئے جو بچت کے لیے سیونگ اکاؤنٹس رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ 8 فیصد پاکستانی پراپرٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں، 4 فیصد میوچوئل فنڈز اور صرف تین فیصد ٹائم ڈپازٹس کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے 24 فیصد بھارتی میوچوئل فنڈز، 19 فیصد فکسڈ انکم سیکیورٹیز اور 17 فیصد اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔

سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’ابھرتے ہوئے دولتمند‘ پاکستانیوں میں سے صرف 14 فیصد اپنی ماہانہ آمدنی میں سے کچھ بچاپاتے ہیں اور یہ شرح سروے میں شامل دیگر 7 ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانیوں کی اکثریت اسلامی قوانین کی حامی

ایس سی بی کے سربراہ ویلتھ مینجمنٹ مسلم رضا مومان نے بتایا کہ سروے میں شامل دیگر 7 ممالک میں ماہانہ بچت کرنے والے شہریوں کی اوسط تعداد 27 فیصد ہے۔

بچت کے لیے معقول رقم کا نہ ہونا، معاشی اہداف کے تعین میں مشکلات، فوری طور پر خرچ کرنے کی عادت اور کم شرح منافع وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستانی کم بچت کرپاتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بچت کے لیے محض اساسی طریقوں پر انحصار امیری کی جانب گامزن افراد کے معاشی اہداف کو پورا کرنے کا دورانیہ بڑھا دیتا ہے۔

سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انڈیا، کینیا اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں ملازمت کے بعد کی زندگی کے لیے بچت کرنے کا رجحان 45 سے 55 برس کی عمر کے افراد میں زیادہ پایا گیا۔

مزید پڑھیں: قومی بچت اسکیموں کے شرح منافع میں کمی

اس کے علاوہ پاکستان، بھارت اور کینیا میں تمام عمر کے افراد نے یہی بتایا کہ ان کی اولین ترجیح بچوں کی تعلیم ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر ایشیا کے ابھرتے ہوئے دولتمند افراد بچت کے بنیادی طریقوں سے آگے بڑھ کر کم خطرے والے ویلتھ منیجمنٹ اسٹریٹجی کو اپنالیں تو 10 سال کے عرصے میں ان کی آمدنی اوسطاً 42 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر امیر ہوتے ہوئے پاکستانی شہری بچت کے بنیادی طریقوں سے ایک قدم آگے بڑھ جائیں تو 10 سال کے دوران ان کی آمدنی 82 فیصد تک زائد ہوسکتی ہے۔


یہ رپورٹ 25 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں