’چلے تھے ساتھ‘: خوبصورت مقامات اور کمزور کہانی

اپ ڈیٹ 28 اپريل 2017
فلم 21 اپریل کو سینما گھروں میں پیش کی گئی — ۔
فلم 21 اپریل کو سینما گھروں میں پیش کی گئی — ۔

فلم ’چلے تھے ساتھ‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے پاکستان چین دوستی کے تناظر میں بنائی گئی پہلی فلم کا اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فلم کو باقاعدہ طور پر چینی فلمی صنعت کے اشتراک سے نہیں بنایا گیا، بلکہ یہ پاکستانی فلمی صنعت کی یک طرفہ کوشش تھی۔

البتہ فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار کینٹ ایس لیونگ (Kent S Leung) ہیں، جو چینی نژاد کینیڈین اداکار ہیں، ان کے علاوہ سب کچھ ’میڈ اِن پاکستان‘ تھا، مگر دو ممالک کے حالیہ تناظر میں یہ ایک اچھا قدم ہے، ہمیں بولی وڈ سے آگے بھی نکل کر سوچنا چاہیے، اور اس حوالے سے اس طرح کے موضوع پر فلم بنانے کی کوشش قابل تحسین ہے۔

فلم سازی و ہدایت کاری:

اس فلم میں سب سے زیادہ توجہ لوکیشنز پر دی گئی، جس کی وجہ سے فلم کی سینماٹوگرافی کے نتائج بہت شاندار ہیں۔ شمالی علاقہ جات کے تمام اہم مقامات کو فلم کی عکس بندی کا حصہ بنایا گیا، جن میں ہنزہ، اسکردو اور دیگر کئی تاریخی مقامات شامل ہیں۔ ان علاقوں کی خوبصورتی کو بہت ہی پیشہ ورانہ اور اچھے انداز میں فلم کا حصہ بنایا گیا۔ اس طرح کے مقامات پر فلم کی عکس بندی مشکل فیصلہ ہوتا ہے، جس کو 40 روز میں، فلم کی ٹیم نے کامیابی سے مکمل کیا۔ اس موضوع پر فلم بنانے کے فیصلے اور فلم ساز اور ہدایت کار کی ماہرانہ کوششوں نے پاکستانی فلمی صنعت میں ایک اچھا اضافہ کیا۔ پاکستان میں سیاحت کے فروغ اور ان علاقوں کا امن پسند تصور واپس لانے میں ایسی فلمیں مددگارثابت ہوں گی۔

کہانی:

فلم کی کہانی میں کچھ نیا نہیں ہے بلکہ روایتی انداز میں بغیر کسی جذباتی اتار چڑھاؤ کے فلم میں کہانی کو سیدھا سیدھا بیان کردیا گیا۔ ایک لڑکی ’ریشم‘ جس کا تعلق شمالی علاقہ جات سے ہے، اس کو کراچی میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے دکھایا گیا، وہ دوستوں کے ساتھ چھٹیاں منانے آبائی علاقے جاتی ہے، مگرحیرت انگیز طور پر وہ ایک گائیڈ کے ساتھ تمام علاقوں میں سفرکررہی ہوتی ہیں، اب اپنے آبائی علاقے کا سفر کسی مقامی گائیڈ کے ذریعے کرنا ہی ایک بڑی غلطی اور کہانی میں جھول ثابت کرتا ہے۔ کہانی کو کسی سفرنامے کے انداز میں لکھا گیا ہے، مقامی علاقے کی زبان اور ثقافت بھی فلم میں کہیں دکھائی نہیں دیتی، سوائے چند ایک مناظر کے، ایسا لگتا ہے کہ پوری فلم کراچی میں بنی ہے، حتیٰ کہ ژالے سرحدی کی شکل میں ایک کردار دکھایا گیا، جو ایک ایسی ماڈرن خاتون ہیں، جو بغیر شوہر کے شمالی علاقہ جات میں انتہائی اطمینان سے اپنی زندگی بسر کررہی ہے۔ یہ بھی ایک کنفیوژ کردینے والا کردار تھا، دیگر کرداروں کی کیمسٹری بھی کچھ اچھی نہ تھی، اس قسم کی بے شمار غلطیاں فلم کی کہانی میں موجود ہیں۔

فلم کی کہانی کو اس علاقے میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے حقیقی واقعات کے ساتھ جوڑنے کی بھی ناکام کوشش کی گئی۔ اس کہانی میں صرف ایک پہلو بہت مضبوط تھا، اگر اس پر کہانی نویس مزید کام کرلیتیں، تو فلم بہت عمدہ کہانی میں تبدیل ہوجاتی، وہ تھا شاہراہ ریشم پر جاں بحق ہونے والے دو سو چینی مزدوروں کا تذکرہ، جن سے کہانی کے مرکزی کردار کینٹ ایس لیونگ کو منسوب کیا گیا۔ یہ ایک مضبوط اینگل تھا، اگر اس پر مزید باریک بینی سے کام کرلیا جاتا، مگر یہ رخ کہانی میں کہیں کھو گیا۔ یہ فلم ایک کہانی کے طورپر غیر متاثر کن ثابت ہوئی۔

موسیقی:

اس فلم کے تین گیت ہیں جن سے موسیقار نے انصاف کیا ہے۔ تینوں گانوں میں ایک انفرادیت ضرور ہے، مگر یہ ایک اچھا موقع تھا، اگر شمالی علاقہ جات کی مقامی موسیقی کو بھی فلم میں شامل کیا جاتا، مگر موسیقار، اس سے محروم رہے۔ فلم کے گیتوں کی شاعری اور گلوکاری بھی ٹھیک تھی، لیکن اس میں ’مولا ملادے‘ گیت دل کو چھو لینے والا ثابت ہوا، جس کی موسیقی عباس علی خان نے دی۔ بہروز سبزواری سے بھی گلوکاری کا تجربہ کروایا گیا، جو بہت زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا۔ بیک گراؤنڈ میوزک عباس علی خان نے دیا، وہ فلم کے مزاج کے مطابق تھا پس منظر میں صداکاری کے طور پر ’شیرباز کلیم‘ کی آواز استعمال ہوئی، جس سے فلم کا تعارفی و اختتامی حصہ مضبوط ہوا، وہ گلگت بلتستان ریڈیو سے وابستہ ماہر براڈکاسٹر ہیں، اس فلم میں انہوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو ثابت بھی کیا۔

اداکاری:

اس میدان میں ’سائرہ شہروز‘ اور ’کینٹ ایس لیونگ‘ کامیاب رہے۔ دونوں کا مختلف ثقافتی پس منظر ہونے کے باجود، ایک دوسرے سے اشتراک اور ہم آہنگی رہی، دونوں نے بہت اعتماد سے فلم کے تاثر کو آگے بڑھایا، اس میں بہروزسبزواری، شمیم ہلالی اور شیرباز کلیم نے بھی اپنی منجھی ہوئی اداکاری سے فلم کو دلچسپ بنایا، البتہ باقی اداکاروں نے اپنی اداکاری کو فلم کے مزاج کی طرح ادا نہیں کیا، زیادہ تر کا انداز مصنوعی تھا، جیسے وہ مکالمے ادا کرنے کے بجائے پڑھ رہے ہوں، ایسی کہانیاں، جہاں کردار ایک دوسرے کے کافی نزدیک ہوں، تاثرات کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ قابل تعریف کام کینٹ ایس لیونگ کا ہے، جن کا فلمی اورثقافتی پس منظر مختلف ہونے کے باجود منفرد تھا۔

نتیجہ:

پاکستانی فلمی صنعت کو عالمی سطح پر اپنی شناخت بنانے کے لیے ایسی فلموں کی ضرورت ہے۔ امید ہے اس فلم کی وجہ سے پاکستان اور چین کی فلمی صنعت ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست کام کرنے کے بارے میں ضرور سوچیں گی۔ مستقبل میں چین کی فلمیں پاکستان میں اور پاکستانی فلمیں چین میں نمائش کے لیے پیش ہوں گی۔ فلم اپنی کمزور اور تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے شاید پاکستانی فلم بینوں کی توجہ حاصل نہ کر پائے گی، مگر پاک-چین دوستی کے تناظر میں اس فلم کا بنایا جانا ایک اہم اقدام ہے، جس کے لیے فلم ساز اوردیگر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

فلم: چلے تھے ساتھ فلم ساز: شیخ شیراز مبشر، بینش عمر ہدایت کار: عمرعادل کہانی نویس: عطیہ زیدی موسیقی: عباس علی خان(بیک گراؤنڈ میوزک)، تیمور صلاح الدین فنکار: سائرہ شہروز، کینٹ ایس لیونگ، اسامہ طاہر، ژالے سرحدی، بہروز سبزواری، شمیم ہلالی، منشا پاشا، فارس خالد، شیرباز کلیم

لکھاری سے ان کی ای میل [email protected] پر رابطہ کریں

تبصرے (0) بند ہیں