افغانستان کے شمالی صوبے تخار میں طالبان نے 3 سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 8 افغان پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے جبکہ ضلع کا زمینی راستہ بھی کاٹ دیا گیا۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق صوبائی ترجمان ثناء اللہ تیمور کے مطابق حملہ گذشتہ روز کیا گیا تھا اور کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی مسلح چھڑپ کے بعد 3 پولیس افسران زخمی ہوئے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ حملے میں 8 حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد عسکریت پسند ضلع درقاد اور خواجہ بہاؤ الدین کے درمیان زمینی راستہ منقطع کرنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن حکومت نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کیلئے مزید سیکیورٹی اہلکاروں کو علاقے میں روانہ کردیا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز امریکی سیکریٹری دفاع جِم میٹِس نے اپنے دورہ کابل کے موقع پر اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ یہ جنگ امریکا کی سب سے بڑی جنگ بن چکی ہے جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ افغان شورش کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی مدد کیلئے مزید فوجی دستے افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کے حملے میں 100 سے زائد افغان فوجی ہلاک و زخمی

امریکی سیکریٹری دفاع نے طالبان کے خلاف افغان فورسز کی بھرپور مدد کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ '2017 بھی ایک مشکل سال ہونے جارہا ہے'۔

اس موقع پر انھوں نے روس پر الزام لگایا کہ وہ امریکا کی زیر نگرانی لڑنے والی افغان فورسز کے خلاف طالبان کو ہتھیار فراہم کررہا ہے، ان الزامات کو ماسکو نے مسترد کردیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے طالبان نے ایک افغان بیس پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 130 فوجی اہلکار اور افسران ہلاک ہوگئے تھے۔

اس حملے کے بعد افغان وزیر دفاع اور آرمی چیف مستعفی ہوگئے، جس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد امریکی سیکریٹری دفاع نے افغان صدر اشرف غنی سے کابل میں ملاقات کی تھی۔

اس کے علاہ گذشتہ روز ایک خود کش بمبار نے افغانستان کے مشرقی صوبے خوست میں دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی کے ذریعے سیکیورٹی چیک پوسٹ کو زور دار دھماکے سے اڑا دیا تھا جس میں کم سے کم 4 افغان سیکیورٹی گارڈ ہلاک ہوئے تھے۔

صوبہ خوست کے صوبائی پولیس چیف جنرل فیض اللہ غیرت کا کہنا تھا کہ واقعے میں دیگر 6 سیکیورٹی گارڈز زخمی بھی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ہلمند میں طالبان کا حملہ، 17 پولیس اہلکار ہلاک

انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے سیکیورٹی گارڈز خوست شہر کے قریب ایک امریکی بیس کی سیکیورٹی پر تعینات تھے۔

دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک جاری بیان میں خوست حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

واضح رہے کہ 2014 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد طالبان کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ افغانستان میں فورسز کی ٹریننگ کیلئے موجود دیگر 10000 سے زائد امریکی فوج کے انخلاء تک وہ یہ حملے جاری رکھیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں