صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ریسکیو ٹیم نے تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ کو تحویل میں لے لیا۔

لاہور میں گھریلوں تشدد کا ایک اور واقعہ اس وقت سامنے آیا جب مسلم ٹاؤن میں ایک مکان میں کام کرنے والی گھریلوں ملازمہ اپنے مالکان کے تشدد کے باعث گھر سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگئی۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے مطابق متاثرہ لڑکی گذشتہ 3 سال سے مذکورہ گھر میں گھریلوں ملازمہ تھی۔

بیورو نے دعویٰ کیا کہ 'لڑکی نے بھاگ کر اپنی جان بچائی ہے'۔

چئیر پرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو صبا صادق کی ہدایت پر بیورو کی ریسکیو ٹیم نے مسلم ٹاؤن کے علاقے میں تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ کو تحویل میں لے لیا۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس میں نامزد جج کو کام سے روک دیا گیا

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے نواحی گاؤں سردار پورہ کی رہائشی 14 سالہ پلوشہ مسلم ٹاؤن میں عمران شیخ نامی شخص کے گھر پر ملازمہ کے طور پر کام کررہی تھی۔

جہاں عمران اور اس کی اہلیہ مبینہ طور پر لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔

خیال رہے کہ کچھ ماہ قبل 10 سالہ گھریلوں ملازمہ طیبہ پر اس کے مالکان کی جانب سے تشدد کا واقعہ میڈیا کی خبروں کی زینت بنا تھا۔

طیبہ کو مبینہ طور پر سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان اور اس کی اہلیہ نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اسے 28 دسمبر 2016 کو اسلام آباد میں قائم ان کے گھر سے شدید زخمی حالت میں ریسکیو کرکے امداد فراہم کی گئی تھی۔

لاہور واقعے سے قبل ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف نے طیبہ کیس میں پیش رفت کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ مذکورہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھیج دیا گیا ہے اور اس کی سماعت وہاں ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان کے خلاف چالان پیش کردیا گیا ہے اور انھیں 27 اپریل کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: پولیس نے عدالت میں رپورٹ جمع کرادی

اس کے علاوہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا کہ حکومت بچوں کے حقوق کے بل پر کام کررہی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے بینچ کو بتایا کہ حکومت مذکورہ بل پر اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کررہی ہے اور اسے جلد عدالت میں بھی پیش کردیا جائے گا۔

اس موقع پر بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان نے نشاندہی کی کہ گھریلوں ملازمین (ملازمین کے حقوق) ایکٹ 2013 میں سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا تاہم اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ 'اس معاشرتی لعنت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام بچوں کو آئین میں موجود بچوں کے مفت تعلیم کی شقوں کے تحت تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے'۔

تبصرے (0) بند ہیں