کراچی: گذشتہ چند سالوں میں ملکی قانون سازی میں خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے متعدد قوانین کو منظور کیا گیا تاہم اب بھی پولیس فورس میں خواتین کی نمائندگی 2 فیصد سے کم ہے۔

حکام کے مطابق نیشنل پولیس بیورو (این پی بی) کی جانب سے اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار کے حساب سے ملک بھر میں پولیس اہلکاروں کی تعداد 3 لاکھ 91 ہزار، 364 ہے جس میں خواتین کی تعداد صرف 5 ہزار 731 ہے۔

این پی بی کی رپورٹ کے مطابق دیگر صوبوں اور خطوں کی نسبت گلگت بلتستان، خواتین پولیس اہلکاروں کی 3.4 فیصد شرح کے ساتھ سب سے آگے ہے جبکہ ایک صوبہ ایسا بھی ہے جہاں پولیس فورس میں خواتین کی شرح محض 0.48 فیصد ہے۔

حکام کا ماننا ہے کہ ثقافتی روایات و اطوار کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ کیے جانے کے سبب پولیس فورس میں خواتین کی تعداد مختصر ہے جبکہ یہ تعداد کم از کم 10 فیصد ہونی چاہیئے۔

این پی بی کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'بلوچستان کی صورتحال مایوس کن ہے، ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پولیس کے محکمے میں صرف 156 خواتین کام کررہی ہیں جبکہ یہاں کُل پولیس اہلکاروں کی تعداد 32 ہزار 850 ہے، صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ سوائے ایک انسپکٹر، ایک سب انسپکٹر اور ایک خاتون اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے علاوہ اکثریت خواتین اہلکاروں کی تعداد کانسٹیبل کے عہدے پر کام کررہی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: مردانہ معاشرے کی پراعتماد خاتون پولیس اہلکار

حکام کے مطابق، اسلام آباد میں یہ صورتحال قدرے بہتر ہے لیکن کچھ خاص اطمینان بخش نہیں، وفاقی دارالحکومت میں خواتین اہلکاروں کی تعداد 278 ہے جو کُل پولیس اہلکاروں کی تعداد کا صرف 2.8 فیصد بنتا ہے۔

پنجاب میں 1.8 فیصد کے ساتھ 2 ہزار 804 خواتین اہلکار تعینات ہیں جبکہ سندھ پولیس فورس میں خواتین کی نمائندگی 1 ہزار 498 اہلکاروں کے ساتھ 1.5 فیصد ہے۔

آزاد کشمیر میں 8 ہزار 325 اہلکاروں کی فورس میں 129 خواتین کے ساتھ یہ شرح 1.6 فیصد ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں 68 ہزار 106 پولیس اہلکاروں میں خواتین کی 683 تعداد پولیس فورس میں خواتین کی نمائندگی کو 1 فیصد پر لے آتی ہے۔

ان اعداد و شمار کے ساتھ مذکورہ عہدےدار نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ ملک بھر میں پولیس اہلکاروں میں خواتین کی نمائندگی بہتر ہورہی ہے اور ایک سال قبل 0.94 فیصد کی شرح اب 1.46 تک جاپہنچی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی کی پہلی خاتون تھانے دار

نیشنل پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل اقبال محمود کے مطابق 'یہ شرح اطمینان بخش تو نہیں تاہم اس میں بہتری آرہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کسی بھی شخص یا ادارے کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے خواتین گریجویٹس کو پولیس کے پیشے کا انتخاب کرنے کے لیے پہل کرنی ہوگی'۔

کراچی ٹریفک پولیس میں سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داریاں نبھانے والی ارم اعوان اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ پڑھی لکھی خواتین میں اس شعبے کی طرف آنے کا رجحان کم ہے، لیکن دیگر کئی منفی تصورات بھی پولیس میں خواتین کی نمائندگی کم ہونے کی وجہ ہیں۔

ایس پی ارم اعوان کا کہنا تھا کہ 'اول تو لڑکیوں کے گھر والے انہیں اس پیشے کو اختیار نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، اگر کوئی لڑکی ہمت کرکے پولیس فورس کا حصہ بن بھی جائے تو وہ دوسروں کو اس شعبے کی طرف آنے کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کرتی، جس کی بڑی وجہ موجودہ دور ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'خواتین اہلکاروں کو اہم عہدے اور باقاعدہ پولیسنگ کی نوکریاں نہیں دی جاتیں، انہیں ہمیشہ پولیس فورس میں مردوں کے مقابلے میں ثانوی حصہ سمجھا جاتا ہے'۔


یہ خبر 26 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں