امریکی ریاست کیلیفورنیا کے اسٹینفورڈ سینٹر میں ڈیزائن چیلنج 2017 کا عالمی مقابلہ جیتنے والے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے طلبہ مستقبل میں اپنے بنائے ہوئے پروجیکٹ کو ملک بھر میں عام کرنے کا ارادہ رکتھے ہیں تاکہ اس جدید آلے سے بزرگ اور بیمار افراد کی مدد کی جاسکے۔

حال ہی میں نسٹ یونیورسٹی کی 3 رکنی ٹیم میں شامل طلبہ نے مختلف امراض سے بچاؤ، تحفظ یا اس سلسلے میں مدد فراہم کرنے والے اس آلے کو پیش کیا اور یوں انہوں نے عالمی رینکنگ میں بہترین شمار ہونے والی تمام یونیورسٹی ٹیموں کو شکست دیتے ہوئے یہ مقابلہ جیتا تھا، جس پر انہیں نقد انعام سمیت ایوارڈ پیش کیا گیا۔

نسٹ یونیورسٹی کی اس ٹیم میں شامل حوریا انعم، اویس شفیق اور ارسلان جاوید نے ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ یہ ایک مشکل کام تھا، لیکن دل میں اپنے ملک کی خاطر کچھ کرنے کے جذبہ کی بدولت انہیں اس مقابلے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

مقابلے میں حصہ لینے والے طالب ارسلان جاوید نے اپنے پروجیکٹ کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس جدید آلے سے اُن افراد کی مدد کی جاسکتی ہے جن کے ہاتھ زائد عمر یا کسی بیماری کی وجہ کانپتے ہیں جس کے باعث وہ اپنا کام خود سے نہیں کر پاتے۔

ارسلان نے بتایا کہ دستانہ نما یہ آلہ بزرگ افراد کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو ختم کے لیے انتہائی موثر ہے جس کو پہن کر وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا، 'ہمیں خوشی ہے کہ ہم اپنے اس پروجکیٹ کو ایک ایسی جگہ پر لے کر گئے جہاں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے درمیان ہمارا مقابلہ تھا اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس میں فاتح قرار پائے'۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس پروجیکٹ کو مزید آگے بڑھانے کے لیے حکومت سے کسی قسم کی مالی مدد کی درخواست کی گئی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اب تک اس پروجیکٹ کے لیے مقامی سطح پر خود ہماری یونیورسٹی تمام مالی مدد فراہم کررہی ہے تاکہ ہم اسے مزید جدید بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔

اس ٹیم میں شامل طالبہ حوریا انعم نے بتایا کہ 'جب میں اس مقابلے میں شرکت کرنے جارہی تھیں تو دل میں ایک ڈر تھا، کیونکہ اتنی بڑی اور اعلیٰ یونیورسٹیوں کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہونے جارہا تھا، لیکن دل میں اپنے وطنِ عزیز کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ اور لگن ہی وہ واحد چیز تھی جس نے ہمیں کامیابی کی منزل تک پہنچایا'۔

حوریا نے بتایا کہ 'یہاں سے جاتے وقت میرے ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ وہاں جاکر پاکستان کا نام بلند کرنا ہے'۔

اس سوال پر کہ اس پروجیکٹ کو بنانے میں انھیں کن کن مشکلات کا سامنا رہا اور اس کی کامیابی کی کتنی امید تھی؟ حوریا انعم نے جواب دیا، 'تیاری کے دوران بہت سے مسائل کا سامنا ہوا، لیکن ہم نے اپنے عزم اور ہمت سے انہیں حل کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس پروجیکٹ میں جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش تھا وہ اس آلے کو مختلف افراد پر ٹیسٹ کرنا تھا جس کے لیے ہسپتال سے منظوری لینا انتہائی مشکل ہوتا ہے، لیکن ہماری یونیورسٹی انتظامیہ کی مدد سے ہم نے فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال کے ساتھ تعاون کرکے یہ کام سرانجام دیا'۔

انھوں نے کہا کہ ہسپتال میں ڈاکٹرز اور انتظامیہ نے بھی اس کام میں بہت مدد جس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی۔

حوریا نے کہا، 'اگرچہ ہمیں اس پروجیکٹ پر نقد انعام اور ایوارڈ بھی ملا، لیکن ہمیں اصل خوشی اور فخر اپنے ملک کا نام روشن کرنے پر ہے'۔

پروگرام میں موجود ایک اور طالب علم اویس شفیق نے بتایا کہ اس پروجیکٹ پر وہ اور ان کی ٹیم گذشتہ ڈیرھ سال سے کام کررہے ہیں، کیونکہ یہ وہ آلہ ہے جو اب تک دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں اور اسی لیے اس کی تیاری میں ہمیں بہت ریسرچ کی ضرورت پیش آئی۔

اویس کا کہنا تھا، 'اللہ کا شکر ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور نسٹ یونیورسٹی کے ذریعے ہم نے ہسپتال کے ساتھ تعاون کرکے مختلف مریضوں پر اس آلے کو ٹیسٹ کیا جو کہ سب سے اہم مرحلہ تھا'۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب اس پروجیکٹ کا آغاز ہوا تب ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اسے صرف مقابلے تک نہیں، بلکہ ایک ایسے اسٹیج تک لے کر جائیں گے جہاں معاشرے میں اس طرح کے افراد کی مدد ہوسکے اور یہ ہماری ذاتی سوچ تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں