قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے اجلاس میں رکن اسمبلی بابر نوازخان کا کہنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت کے چند نجی ہسپتال گردوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین خالد حسین کی صدارت میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں منعقدہ اجلاس میں بابر نواز نے اپنے تجویز کردہ بل 'ٹرانپلانٹیشن آف ہیومن آرگن اینڈ ٹشوز (ترمیمی) بل 2017 کا دفاع کیا۔

بابر نوازخان جو خود قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں، کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں تین ماہ قبل گردوں کی خرید وفروخت میں ملوث ایک منظم گروہ کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی جس کے باعث ان کے ساتھی شہر میں آزادی سے گھوم رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: گردوں کی خرید و فروخت میں ملوث بین الاقوامی گروہ پکڑا گیا

ان کا کہنا تھا کہ 'نوجوانوں کو گردے فروخت کرنے کے لیے بلیک میل کیا جاتا ہے اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں کئی کیسز درج ہوئے ہیں جہاں لوگوں کو 10 ہزار روپے میں گردے فروخت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، انھیں دھکمیاں دی جاتی ہیں اور مجسٹریٹ کے پاس اپنے گردوں کو عطیہ کرنے کا اقرار کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے'۔

نواز خان کا کہنا تھا کہ میڈیا انسانی اعضاء کی غیرقانونی پیوند کاری کو نمایاں نہیں کرتا، ساتھ ہی انھوں نے تجویز دی کہ جو اس جرم میں ملوث ہوں انھیں 5 سے10 سال کی قید ہو۔

وزیرصحت سائرہ افضل تارڈ نے بھی نوازخان کی کئی باتوں پر اتفاق کیا اور کہا کہ اب اعضاء کی خرید و فروخت کم ہوئی ہے۔

سائرہ افضل تارڈ کا کہنا تھا کہ 'عطیہ کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مفت میں گردے دے رہے ہیں، میں کمیٹی کے اراکین کو تجویز دیتی ہوں کہ پیوندکاری کا جائزہ لینا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ جو بھی ہسپتال انسانی اعضاء کی فروخت میں ملوث ہوگا، اسے بند کر دیا جائے گا گوکہ یہ قانون وفاقی دارالحکومت تک محدود ہے۔

وزیر صحت نے کہا کہ وزارت مسائل پر پہلے ہی کام کررہی ہے اور ہیومن آرگن ٹرانسپورٹ اتھارٹی ایکٹ کے تحت پانچ بل ترامیم میں جاچکے ہیں جبکہ وزارت کا بل پاس ہونا چاہیئے جس سے اچھے نتائج کی توقع ہے۔

وزیر صحت کی جانب سے درخواست پر نواز خان اپنے بل سے دستبردار ہوئے اور تمباکو نوشی سے بچاؤ کا بل ملتوی کردیا گیا۔


یہ رپورٹ 28 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں