وفاقی وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کے عوض حکومت کی طرف سے 10 ارب روپے کی پیشکش کے دعوے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت عمران خان سے اس الزام کا جواب لینے کے لیے ہر حد تک جائے گی۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ 'عمران خان خواہشات کی سیاست کرتے آئے ہیں، پہلے انہیں وزیراعظم بننے کا خواب نظر آتا تھا اور اب انہیں خوابوں میں 10 ارب روپے نظر آتے ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ 'اگر معاملہ عدالت میں گیا تو عمران خان کو معلوم ہوگا کہ قانون کیا ہوتا ہے، لہذا اب ہم اس جھوٹ پر ان کی جان نہیں چھوڑیں گے'۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ 'عمران خان سے ہر جگہ اب ایک ہی سوال کیا جائے گا کہ آخر 10 ارب روپے کی آفر انہیں کی کس نے تھی'۔

اس سوال پر کہ پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد اب حکومت کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ لیگی رہنما نے واضح کیا کہ ان کی جماعت اپنے 5 سال پورے کرے گی اور تمام منصوبوں کو 2018 تک مکمل کرلیا جائے گا۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ 'گذشتہ 4 سال میں ہمارے لیے عمران خان اور ان کی جماعت نے کافی مشکلات پیدا کی وہ وقت بھی گزر گیا تو اب یہ 1 سال بھی گزر جائے گا'۔

انھوں نے کہا کہ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، تحریک انصاف 'گندی سیاست' پر اتر آئی ہے، لیکن یہ بات ہمارے مخالفین کو معلوم ہے کہ ہم اپنا وقت مکمل کیے بغیر نہیں جائیں گے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں پشاور میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں وزیراعظم نواز شریف نے پاناما پیپر لیکس کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کے عوض 10 ارب روپے کی پیشکش کی تھی۔

عمران خان کے فیس بک اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں عمران خان کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے معاملے پر 'اگر ہم چپ کرکے بیٹھ جائیں تو وزیراعظم نواز شریف کے پاس بہت وسائل ہیں'۔

اس دعوے پر حکومتی ردعمل سامنے آنے کے بعد گذشتہ روز اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے واضح کیا کہ 10 ارب روپے کی پیشکش کرنے والے شخص کا نام وہ عدالت میں بتائیں گے اور اس پاکستانی تاجر کے تحفظ کے لیے عدالت سے درخواست بھی کریں گے، کیونکہ وہ اپنے اس دعوے پر اب بھی قائم ہیں۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔

فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا نمائندہ شامل کیا جائے۔

تاہم پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں نے نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کردیا جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس حوالے سے باقاعدہ مہم کا بھی آغاز کردیا گیا، جس میں پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے میں سندھ میں احتجاج کیا جبکہ دوسرے مرحلے میں پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مظاہرے کیے جائیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 29, 2017 05:45pm
دیکھتے ہیں! ن لیگ عمران خان کے 10ارب رشوت کی پیشکس کے الزام کا جواب لینے کے لیے کس حد تک جائے گی۔ خیرخواہ