کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ڈاکٹر وحید الرحمٰن کی دوسری برسی کے موقع پر اپنے اعلامیے میں حکومت کی جانب سے سندھ کے تین اساتذدہ کے قاتلوں کی گرفتاری اور لواحقین کو معاوضہ دینے میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔

کراچی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور صحافی ڈاکٹر وحیدالرحمٰن کو 2015 میں قتل کیا گیا تھا۔

کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر شکیل فاروقی نے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن سندھ کی بھی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کے قتل کے دوسال بعد سندھ حکومت نہ تو ان کے قاتلوں کو گرفتار کرسکی اور نہ ہی ان کے لواحقین کے ساتھ کئے گئے وعدے کے مطابق 5 کروڑ روپے کی ادائیگی کرپائی'۔

انھوں نے مقتول ڈاکٹر وحید الرحمٰن کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ معاشرے کے مختلف طبقوں کو یکجا کرنے کے ماہر تھے اور ہمیشہ ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے جنھیں تعصب اور نظر انداز کیا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:جامعہ کراچی کے ایک اور استاد قتل

انھوں نے کہا کہ 2012 میں قتل ہونے والے سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر بشیر اے چنار اور 2014 میں قتل ہونے والے کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر شکیل اوج بھی انصاف کے ممتظر ہیں۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں اپنے اساتذہ کی قدر کرنی چاہیے اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں سے سبق سیکھنا چاہیے جہاں مقتول اساتذہ کے لواحقین کو 50 لاکھ سے 70 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سندھ میں اساتذہ کو قتل کرنا آسان ہے، حکومت نے ڈاکر وحید الرحمٰن کے اہل خانہ کو 10 لاکھ ادا کیے ہیں لیکن ڈاکٹرشکیل اوج اور ڈاکٹر بشیر چنار کے اہل خانہ کو کچھ نہیں دیا گیا'۔ انھوں نے حکومت کے 'متعصبانہ' رویے کی مذمت کی۔

فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن سندھ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ 'حکومت جامعات میں سیاست کھیلنا بند کرے اور اپنے وعدے پورے کرے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مقتول اساتذہ کے اہل خانہ کو فی الفور معاوضہ ادا کیا جائے اور بلاتاخیر قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے'۔

ڈاکٹرشکیل فاروقی نے کہا کہ اپنے مطالبات کے حق میں حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے سندھ کی تمام سرکاری جامعات کے نمائندوں کا ایک اجلاس 4 مئی کو مہران یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں بلایا گیا ہے۔


یہ رپورٹ 30 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں