فلسطین کی مقامی تنظیم حماس کی نئی پالیسی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری میں اپنے تصویر کو بہتر طور پر پیش کرنے کیلئے تنظیم اسرائیل پر اپنے موقف میں تبدیلی کیلئے تیار ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق دستاویزات میں 1967 میں ہونے والی 6 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی جانب سے قبضہ کیے گئے علاقوں کو تسلیم کرنے کی تجویز کو منظور کرلیا۔

دستاویزات میں مزید کہا گیا کہ تنظیم کی جدوجہد یہودیوں کے خلاف مذہبی طور پر نہیں ہے بلکہ ایک قابض کے طور پر اسرائیل کے خلاف ہے۔

تاہم حماس کے حکام کا کہنا ہے کہ دستاویزات سے یہ مراد نہ لی جائے کہ اس کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بین الاقوامی مطالبہ منظور نہیں کیا گیا۔

دستاویزات کے مطابق 'حماس ایک خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں سوچ رہی ہے، جس کا دارالحکومت یروشلم ہوگا اور اس کی سرحدی 4 جون 1967 کے مطابق ہوں گی، اس میں تمام مہاجرین کی واپسی اور ایسے لوگوں کی واپسی جنھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا ممکن بنائی جائے گی، یہ فارمولا قومی اتفاق رائے سے پیش کیا گیا ہے'۔

یاد رہے کہ حماس، جسے غزہ کے کنارے کے علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل ہے، الفتح سے بہت سخت اختلافات موجود ہیں، فلسطینی صدر محمود عباس کی قیادت میں الفتح مغربی کنارے کے علاقوں میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

خیال رہے کہ حماس کا یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب محمود عباس آئندہ کچھ روز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

یہ اعلانات حماس کے رہنما خالد مشعل کی جانب سے دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا جس کے بعد دستاویزات کو آن لائن شیئر کردیا گیا۔

یہ پریس کانفرنس غزہ کے کنارے کے علاقے میں براہ راست نشر کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں