ستار کا چراغ گُل ہوا

اپ ڈیٹ 08 مئ 2017
فوٹو بشکریہ/ لکھاری—۔
فوٹو بشکریہ/ لکھاری—۔

مغل دور سے لے کر عہد حاضر تک ستار بجانے والے کئی آئے اور گئے، مگر ان میں سے کچھ ایسے ہنر مند فنکار بھی تھے جن کی باج سے سماعتیں آج بھی مانوس ہیں۔

وہ ستار پر اُنگلیاں رکھتے تو محسوس ہوتا ذہن کی روشنی کو بحال کرنے کے لیے کوئی چراغوں میں سُروں کا شہد انڈیل رہا ہو۔ سماعتوں میں یک بہ یک طمانیت کے دیے جل اٹھیں اور اک عالمِ تصور گویا وجدان میں ہو۔ صد افسوس اب وہ منظر نامہ بُجھ گیا۔

وہ انگلیاں ساکت ہوئیں، وہ چراغ گل ہوا، سات دہائیوں کے مسافر کا سفرِ زیست تمام ہوا، برصغیر کے ایک بڑے ستار نواز کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچی۔ ہم اور آپ ان کو اُستاد رئیس خان کہتے ہیں، اب جن کے تذکرے میں ’تھے‘ کا لاحقہ شامل ہوگیا ہے۔

2011 کے دسمبر کی وہ شام میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا جب اُستاد رئیس خان سے میں نے اپنی موسیقی کی کتاب ’سُرمایا‘ کے سلسلے میں انٹرویو کرنے کی درخواست کی، کئی نشستوں میں وہ مکالمہ مکمل ہوا، وہ کتاب شائع ہوئی، خان صاحب کو قونصل خانہ جاپان کراچی کے ثقافتی مرکز میں اس کتاب کی تقریب رونمائی میں مدعو کیا تو مہمانوں میں سب سے پہلے پہنچے تھے، اپنے مزاج سے برعکس نہایت دھیمے لہجے اور شفقت بھرے انداز میں اس تقریب میں میری کتاب پر اظہارِ خیال کیا۔

اس قدر حوصلہ افزائی پاکر مجھے یقین نہ آیا کہ یہ وہی استاد رئیس خان ہیں جن کی درشت مزاجی سے زمانہ واقف ہے، جن میں زیادہ تر ان کی فنی لڑائیاں ہیں جو کم و بیش ہر فنکار کے ساتھ ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو ہوا دینے والے پیش پیش رہے۔

بہرحال میرا تجربہ بالکل مختلف رہا، اس کے بعد متعدد بار ان کے گھر جانا ہوا، ہر بار بہت اچھی طرح ملے، چائے بھی پلائی اور اپنی یادوں میں بھی شریک کیا۔ خود بھی شاعری کرتے تھے، نامور شعرا کا کلام بھی ازبر تھا، جس کا استعمال گفتگو میں برمحل کیا کرتھے تھے۔

مزید پڑھیں: لیجنڈری ستار نواز استاد رئیس خان انتقال کرگئے

استاد رئیس خان میواتی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے والد استاد محمد خان سے تربیت حاصل کی۔ ڈھائی برس کے تھے جب والد نے ان کو ریاض کے موقع پر اپنے ساتھ بٹھانا شروع کیا۔ پانچ برس کی عمر پہلی بار گورنر ممبئی کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ والد ستار میں ’بین کارباج‘ کے ستار نواز تھے، جبکہ والدہ گلوکارہ تھیں۔ دونوں کی فنی صلاحیتوں کے امتزاج نے استاد رئیس خان کے ہنر میں چمک بھر دی اور وہ ستار کی آواز میں دلکش راگ سماعتوں میں اتارنے لگے، انہوں نے یہ لطیف اور باریک کام تقریباً پوری زندگی کیا مگر خاص طور پر 60 کی دہائی سے بھرپور توانائی سے اس فن میں یکتا ہوئے اور ان کا ہنر سر چڑھ کر بولنے لگا۔

انہوں نے فلمی دنیا میں پاک و ہند کے نامور موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ بھی کام کیا، جن میں مدہن موہن، شنکرجے کشن، نوشاد، لکشمی کانت پیارے لال، جے دیوجی، محمد رفیع، کشور کمار، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے اوردیگر شامل ہیں۔

2014 میں پاکستان میں ہونے والے کوک اسٹوڈیو میں بھی ہنس دھنی راگ سنا کر اپنے فن کی پختگی کا عملی ثبوت دیا۔ عابدہ پروین کے ساتھ ’میں صوفی ہوں‘ کے نغمے میں اپنے ستار کا ایسا جادو دکھایا جس کو آسانی سے فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

بلقیس خانم سے شادی کی تو پاکستان کے ہوگئے، یہاں کی شہریت حاصل کرلی اور اوڑھنا بچھونا یہی کیا۔ حکومت پاکستان نے یوں تو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا تھا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس توقیر اور توجہ کی ضرورت فنکار کو ہوتی ہے، وہ اس تمغہ کے ساتھ میسر نہیں آتی، فنکار کی تنہائی اور درد کو کوئی نہیں بانٹتا، سب اچھا ستار سننے کے بعد بھول جاتے ہیں، کل جس محفل میں اتنا لطیف ستار سنا تھا وہ حساس فنکار آج کس حال میں ہوگا۔

پاک و ہند میں ستار نوازی کو دو عظیم فنکار ملے، بھارت سے روی شنکر اور پاکستان میں استاد رئیس خان مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ روی شنکر کو عالمی شہرت ملی، جس کی وجہ ان کے ملک اور لوگوں کا انہیں پسند کرنا اور ان کا ساتھ دینا تھا، ہمارے ہاں استاد رئیس خان کو پسند تو کیا گیا، مگر ساتھ کسی نے نہیں دیا۔ مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بھی انہوں نے یہ شکوہ کیا کہ ’جس ملک نے اپنے فنکاروں کی عزت نہیں کی، اُس کے فن کی عزت نہیں کی، وہ دنیا میں سب سے پیچھے ہے‘۔

آج نہ جانے کیوں مجھے ان کا یہ جملہ ایک کڑوا سچ معلوم ہونے لگا، جس شخص نے اس فن کے لیے اپنی زندگی تج دی، جب وہ ہم میں سے رخصت ہوا، تو سوائے پی ٹی وی کے کہیں سے ان کی رحلت کی خبر نشر نہ ہوئی، بعد میں چند ایک نیوز چینلز نے اپنے طور پر رسمی کارروائی پوری کی، بلکہ ایک دو نے تو مجھ سے ہی بات کرکے اپنا کام مکمل کرلیا۔ ایک آدھ نے تو یہ بھی پوچھا یہ کون صاحب ہیں۔ کوئی خبر دے بھی دے، تو وہی روایتی بے حسی، جس میں بس دفتر میں حاضری لگانے کی جلدی ہوتی ہے۔

خان صاحب نے ستار کی تعلیم عام کی، اس ساز کے سیکھنے والوں کو تعلیم دی۔ نئی نسل میں اپنا علم منتقل کیا۔ ان کی چار اولادیں تھیں جن میں سے دو بیٹیوں کو انہوں نے اپنا فن منتقل کیا۔ نئی نسل کے کچھ گلوکاروں نے بھی ان سے موسیقی کی بنیادی تعلیم حاصل کی، جن میں نمایاں نام احمد جہانزیب اور نعمان جاوید کے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود خان صاحب اس بات سے واقف تھے کہ ناقدری ہمارے معاشرے میں ایک پختہ روایت ہے، اسی لیے وہ برملا اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے اور کیوں نہ کرتے، جس کے ساتھ روی شنکر، استاد بسم اللہ خان، استاد سلطان خان، ذاکر حسین جیسے عالمی شہرت یافتہ فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہو، اسی شخصیت کو اپنے ہی ملک میں وہ مقام نہ دیا جائے، تو وہ کیا کرے گا؟ کسی فنکار کے ساتھ پاکستانی ذرائع ابلاغ کا یہ رویہ پہلی مرتبہ نہیں ہے، اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔

2014 میں استاد رئیس خان صاحب نے عابدہ پروین کے ساتھ سنگت کی اور یقیناً نئی نسل کو اندازہ ہوگا کہ کتنا بڑا فنکار ہم سے بچھڑ گیا۔ ستار نواز تو اب بھی بہت ہیں مگر زارِستار چلا گیا۔

اب وہ ساز نہیں بجے گا، جو کرشمہ ساز تھا۔


لکھاری سے ان کی ای میل [email protected] پر رابطہ کریں

تبصرے (0) بند ہیں