اسلام آباد: 2016 کے سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحانات کا حصہ بننے والے صرف 2 فیصد امیدوار کامیاب جبکہ نتائج میں تینوں ٹاپ پوزیشن خواتین امیدواروں کے نام رہیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کی جانب سے جاری ہونے والے نتائج کے مطابق صرف 2.06 فیصد طالب علم پاس ہونے کے لیے درکار کم سے کم مارکس حاصل کرسکے۔

نتائج پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایف پی ایس سی کے رکن احمد فاروق کا کہنا تھا کہ 'اس قدر برا نتیجہ تشویش کی بات ہے جبکہ ملک کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند سال سے سی ایس ایس کے امتحان کا نتیجہ مسلسل کم ہوتا جارہا ہے، تاہم ایف پی ایس سی اس بات کا تہیہ کیے ہوئے ہے کہ معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

احمد فاروق کے مطابق نجی تعلیمی اداروں میں ہونے والا اچانک اضافہ نتائج میں کمی کا اہم سبب ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 2018 میں سی ایس ایس امتحان اردو میں لینے کا فیصلہ معطل

ایف پی ایس سی کے جاری کردہ نتائج کے مطابق سال 2016 میں 9643 امیدوار تحریری امتحان کا حصہ بنے اور ان میں سے صرف 202 امیدواروں نے امتحان پاس کیا۔

زبانی امتحان کے بعد 114 مرد امیدواروں اور 85 خواتین امیدواروں کے ساتھ کُل 199 امیدوار کامیاب ہوسکے۔

اس حوالے سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق صرف 193 امیدواروں کی تقرری کی سفارش کی گئی جس میں 109 مرد اور 84 خواتین شامل ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ان امیدواروں کو اسلام آبد کے سیکشن آفیسر اسٹیبلشمنٹ ڈیویژن سے رابطے کی ہدایت دی گئی ہے۔

نتائج کے مطابق تینوں ٹاپ پوزیشنز خواتین امیدواروں نے حاصل کیں جن میں ملیحہ ایثار پہلے، قرۃ العین ظفر دوسرے اور ماریہ جاوید تیسرے نمبر پر رہیں، ان تینوں امیدواروں کا ڈومیسائل پنجاب کا تھا۔

مزید پڑھیں: کیا سی ایس ایس صرف 'تابعداری' کا امتحان ہے؟

واضح رہے کہ سی ایس اسی کے امتحانات کے نتائج میں گذشتہ چند سال سے تنزلی دیکھنے میں آرہی ہے، 2014 میں 3.33 فیصد طالب علم پاس ہوئے، 2015 میں یہ تعداد 3.11 فیصد تک پہنچی جبکہ 2016 میں صرف 2.09 فیصد امیدوار کامیاب ہوسکے۔

اس حوالے سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ ادارہ، ایف پی ایس سی کے ساتھ مل کر سی ایس ایس کے نتائج میں ہونے والی کمی کی وجوہات تلاش کررہا ہے۔

انہوں نے کہا 'میں مانتا ہوں کہ کئی تعلیمی مسائل موجود ہیں اور ہم جامعات کے آڈٹ میں مصروف ہیں، علاوہ ازیں میرے خیال سے طلبہ کی کارکردگی کی جانچ اور جامعات میں ان کو پڑھائے جانے والے مضامین میں بھی فرق موجود ہے'۔

ڈاکٹر مختار احمد کے مطابق ایف پی ایس سی اور ان کا ادارہ ہائیر ایجوکیشن سیکٹر کی بہتری کے لیے مل کر کام کررہا ہے


یہ خبر 11 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں