وکلا نے 12 مئی 2007 کو قتل وغارت کےنتیجے میں 45 سے زائد افراد کی ہلاکت اور کئی افراد کے زخمی ہونے کی یاد میں عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا اور حکومت سے اس تشدد میں ملوث افراد کے کیس کو ملٹری کورٹس میں بھیجنے کا مطالبہ کیا۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی اجلاس میں وکلا رہنماؤں نے حکام کی جانب سے 12 مئی کے تشدد میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات قائم نہ کرنے اور ایک دہائی پرانے کیس کو نتیجے تک نہ پہنچانے پر شدید مذمت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 12 مئی کے متاثرین کے قاتلوں کو گرفتار کرکے سزا دی جاتی تو شہر میں گزشتہ دس برسوں میں اس طرح کےپرتشدد حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہاب سرکی نے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلا 12 مئی کے واقعات کو نہیں بھولیں گے اور نہ ہی حکام کو ایسا کرنے دیں گے۔

یہ پڑھیں:سانحہ 12 مئی کو 10 سال مکمل

انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ معاملے کی اعلیٰ سطح پر انکوائری شروع کرے۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ وکلاتحریک ملک کی دیگر تحریکوں کی طرح مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی جیسا کہ 'ہم 12 مئی کے شہدا کے خاندانوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہے'۔

سینیئر وکیل احمد اویس کا کہنا تھا کہ 12 مئی کی قتل و غارت کے کیس کو ترجیحی بنیادوں پر چلانا چاہیے اور وکلا کو ملک بچانے کے لیے ایک بڑا فیصلہ کرنا ہوگا۔

سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ 12 مئی کے واقعات میں کون ملوث تھا جبکہ 'اہم اسٹیک ہولڈرز اور عہدیداران' اس واقعے کی ایف آئی آر میں نامزد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 12 مئی کے واقعے کے کیس کو ضرور ملٹری کورٹ میں بھیجنا چاہیے۔

کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم قریشی نے کہا کہ 12 مئی کے متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ تک ادا نہیں کیا گیا۔

پاکستان بار کونسل کے رکن محمد عقیل نے بھی اس موقع پر وکلا سے خطاب کیا۔

سندھ بھر کے وکلا نے بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھی تھیں اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا، سٹی کورٹ، ڈسٹرکٹ اور ہائی کورٹ بارایسوسی ایشنز کے اجلاس ہوئے جبکہ بار کے دفاتر میں سیاہ پرچم لہرائے گئے اور 12 مئی کے واقعے کے دس سال مکمل ہونے پر احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔


یہ رپورٹ 13 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں