اسلام آباد: بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں پیر کے روز ہونے والی عوامی سماعت میں پاکستانی نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے مرتب کردہ حکمت عملی اور تجاویز وزیراعظم ہاؤس اور دفتر خارجہ کو بھجوادی گئیں.

پاکستان کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے ڈان کو بتایا کہ کہ 'ہم اپنی تجاویز وزیراعظم ہاؤس اور دفتر خارجہ ارسال کرچکے ہیں' ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور بھی دیا کہ تمام معاملات کو خفیہ رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ حریف ہماری حکمت عملی نہ جان سکیں۔

خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام اور وزارت قانون کے عہدیداران کے ساتھ دو روز تک جاری رہنے والے اجلاس کی سربراہی کرنے والے اشتر اوصاف ہی آئی سی جے میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔

تاہم اس حوالے سے اٹارنی جنرل نے اس امکان کو مسترد بھی نہیں کیا کہ کسی غیر ملکی وکیل کی مدد لی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کی سزائے موت: بھارت کا عالمی عدالت انصاف سے رابطہ

اشتر اوصاف کے مطابق پاکستانی نکتہ نظر کو پیش کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کے بارے میں علم رکھنے والے بہترین ذہن کا انتخاب کیا جائے، ساتھ انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اس کام کے لیے بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے کیونکہ 15 مئی کو سماعت کا آغاز ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کا اہم ترین انصاف کا ادارہ ہے جس کا قیام جون 1945 میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت عمل میں آیا تھا، عدالت کی مرکزی نشست نیدرلینڈز میں دا ہیگ کے مقام پر ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت میں بھارت کے لگائے گئے الزامات پر پاکستان کی جانب سے مؤثر انداز میں جواب دیا جائے گا اور ساتھ ہی ان مظالم کی نشاندہی بھی کی جائے گی جو بھارت مقبوضہ کشمیر میں کررہا ہے۔

دائرہ اختیار کا معاملہ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی قانون کے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان آئی سی جے کے سامنے 1999 کے ایک مقدمے کی مثال دیتے ہوئے دائرہ اختیار کا معاملہ اٹھا سکتا ہے، مذکورہ کیس میں بھارت نے پاکستان کے ایٹلانٹک طیارے کو مار گرائے جانے پر عالمی عدالت کے دائرہ اختیار کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی سی جے کامن ویلتھ ممالک کے درمیان ہونے والے تنازعات سے جڑے مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ آئی سی جے کے صدر کلبھوشن یادیو کی سزا کو مؤخر کرچکے ہیں تاہم عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پیر کو ہونے والی سماعت ان 'عبوری اقدامات' کے حوالے سے ہوگی جن کا بھارت نے مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف اپنے قانون کی دفعہ 41 کے تحت عبوری اقدامات کی اجازت دے سکتی ہے تاہم مقدمے کی کارروائی کے حوالے سے پاکستان کو دیا جانے والا اشارہ آرٹیکل 74 کے تحت تھا جو تکنیکی اعتبار سے حکم امتناع نہیں تھا۔

دریں اثناء نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس علی نواز چوہان جو 2005 سے 2009 تک آئی سی جے کے صدر اور گیمبیا کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں، نے ڈان سے گفتگو میں حیرت کا اظہار کیا کہ اس معاملےکو غیرضروری اہمیت کیوں دی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت کے عالمی عدالت سے رابطے کا جائزہ لے رہے ہیں: مشیرخارجہ

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس چوہان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے پر پرزور انداز میں آئی سی جے کو دلائل دے سکتا ہے کہ فی الوقت عالمی عدالت کا در کھٹکھٹانے کی نوبت نہیں آئی اور ایسے کئی فورمز موجود ہیں جہاں اس معاملے کو لے جایا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی عدالت کو اس بات کی یقین دہانی کراسکتا ہے کہ بھارتی جاسوس کو اس وقت تک سزائے موت نہیں دی جائے گی جب تک دیگر فورمز کو بروئے کار نہیں لایا جاتا۔

جسٹس چوہان نے کہا کہ آئین میں 21ویں ترمیم کو چیلنج کیے جانے کے حالیہ کیس میں سپریم کورٹ نے اس بات کا اختیار قائم رکھا ہے کہ وہ ملٹری کورٹس کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کا دوبارہ جائزہ لے سکتی ہے، اگر اس بات کی نشاندہی ہو کہ ٹرائل شفاف نہیں تھا۔

خیال رہے کہ 3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔

جس کے بعد گذشتہ ماہ 10 اپریل کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنادی گئی تھی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی تھی۔

کلبھوشن یادیو کا ٹرائل فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت کیا تھا، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کردی تھی۔

جسٹس چوہان کا کہنا تھا کہ اگر آئی سی جے اس معاملے کو انسانی حقوق سے جڑا پاتا ہے تو اپنا دائرہ اختیار استعمال کرسکتا ہے باجود اس کے کہ دونوں ممالک کامن ویلتھ کے ارکان ہیں۔

یہ خبر 13 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں