پاک فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے گڑھ شمالی وزیرستان میں زندگی معمول پر لوٹ آئی ہے اور یہاں تمام بازار اور اسکول دوبارہ آباد ہوگئے ہیں۔

شمالی وزیرستان ایجنسی کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) میجر جنرل حسن اظہر حیات نے میران شاہ کے دورے پر آئے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب اس ایجنسی میں کوئی 'نو گو ایریا موجود نہیں ہے'۔

تاہم انھوں نے تحریک طالبان پاکستان کو اب بھی وفاق کے زیر انتطام قبائلی علاقے فاٹا اور پاکستان کے امن کیلئے ایک خطرہ قرار دیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہاں سے ہجرت کرنے والے 80 فیصد لوگ واپس اپنے گھروں میں آکر آباد ہوچکے ہیں اور علاقے کی ترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ واپس آنے والے خاندانوں کو ان کے گھروں پر ضروریات زندگی کی تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

میجر جنرل اظہر حیات کا کہنا تھا کہ 'صرف 18 سے 20 فیصد افراد اپنے علاقوں میں واپسی کے منتظر ہیں اور انھیں بھی جلد منتقل کردیا جائے گا'۔

مقامی افراد کا شکوہ

دوسری جانب شمالی وزیرستان لوٹنے والے خاندانوں نے خوشی کے اظہار کے ساتھ سہولیات کے قفدان کی شکایت بھی کی۔

ایک مقامی سردار ملک نور خان نے ڈان نیوز کو بتایا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک پُرامن اور نئے وزیرستان میں موجود ہیں تاہم ضروریات زندگی موجود نہیں'۔

انھوں نے کہا کہ 'ہمارے پاس بنیادی ضروریات جیسا کہ بجلی، پینے کا صاف پانی اور اسکول ہسپتال موجود نہیں، ہمیں اسکولوں کے لیے اساتذہ اور ہسپتالوں کیلئے ڈاکٹر درکار ہیں'۔

ایک قبائلی فرد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'اگر میران شاہ میں ہیڈرو پاور یا ہسپتال یا اسکول تعمیر کردیے جائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پورا وزیرستان تبدیل ہوگیا ہے'۔

مزید پڑھیں: کرم ایجنسی: حملے میں پولیٹیکل سیکریٹری اور اس کا گارڈ ہلاک

اس کا کہنا تھا کہ 'ہاں، پولیٹیکل انتظامیہ اور دیگر سرکاری محکموں میں ترقیاتی کام ضرور جاری ہیں'۔

شمالی وزیرستان کے رہائشی 25 سالہ ملک عرفان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے تصاویر میں اس ایجنسی کو ایک جنت کے طور پر پیش کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ علاقے کے 944 سرکاری اسکولوں میں سے تقریبا 80 فیصد اسکول اسٹاف اور سہولیات کی کمی کے وجہ سے مناسب انداز میں کام نہیں کرپا رہے، ایسی ہی صورت حال صحت کے شعبے میں بھی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ 'ہماری دکانیں، مکانات، مارکیٹیں، مویشی تباہ ہوگئے اور بیشتر تکمیل کا انتظار کررہے ہیں'۔

مقامی افراد کا کہنا تھا کہ پولیٹیکل انتطامیہ ان مسائل کے حل کیلئے کردار ادا نہیں کررہی۔

انھوں نے بتایا کہ 'پولیٹیکل ایجنٹ ایجنسی کے بادشاہ ہیں اور انھیں اپنے مسائل سے آگاہ کرنے کیلئے ملاقات انتہائی مشکل ہے کیونکہ کسی کو بھی ان تک رسائی حاصل نہیں'۔

آپریشن ضرب عضب کی کامیابیاں

آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کو دہراتے ہوئے جی او سی میجر جنرل حسن اظہر حیات نے بتایا کہ انتہائی سخت موسم اور متعدد سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود سیکیورٹی فورسز نے ایجنسی کو دہشت گردوں سے پاک کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کے دوران 207 سیکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے، دوسری جانب سیکیورٹی فورسز نے 2872 دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔

میجر جنرل حسن اظہر حیات نے کہا کہ اس آپریشن کے دوران 1177 دہشت گرد گرفتار ہوئے جبکہ 1500 نے خود سے فورسز کے سامنے ہتھیار ڈالے۔

اس کے علاوہ آپریشن کے دوران 310 ٹن دھماکا خیز مواد اور لاکھوں کی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ 'یہاں اسلحہ، آئی ای ڈیز بنانے کے کارخانے قائم تھے، تاہم اب علاقے کو اسلحہ سے پاک کردیا گیا ہے اور یہاں کسی کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کا اب اختتام ہوچکا ہے اور ترقیاتی دور کا آغاز ہوا ہے جس کیلئے بڑے منصوبے شروع کیلئے گئے ہیں۔

جی او سی نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں 4 آرمی پبلک اسکول تعمیر ہوچکے ہیں اور میران شاہ میں ایک ماڈل ٹاؤن تعمیر کیا جارہا ہے جو تقریبا تکمیل کے مراحل میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'ہم لوگوں کی سوچ کو تبدیل کررہے ہیں اور میر علی میں ایک بنیاد پرستی کے خاتمے کا مرکز بھی تعمیر کیا گیا ہے، جس میں سیکڑوں افراد کی ذہن سازی کی جارہی ہے'۔

جی او سی نے اس موقع پر سرحد پار سے ہونے والے حملے، سیکیورٹی خطرات اور سیکیورٹی کی صورت حال پر بھی بات کی، انھوں نے کہا کہ 'سرحد پار حملے اور افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں دونوں ممالک کے امن کیلئے خطرہ ہیں'۔

انھوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ سرحد پار کرنے پر بلکل پابندی عائد ہے اور علاقے میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے جبکہ سرحد پر 1113 سیکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کردی گئی ہیں۔

میجر جنرل حسن اظہر حیات نے انکشاف کیا کہ افغانستان کے موبائل نیٹ ورکس پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کام کررہے ہیں اور اس معاملے کو افغان حکومت کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں