اسلام آباد: پاکستان کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 29 مارچ کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے ساتھ جس ’اقرار نامے‘ پر دستخط کیے اس کا مقصد ’حفاظتی دیواریں‘ قائم کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے پہلی بار آئی سی جے کے سامنے اپنے تحفظات رکھے ہیں اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے میں آئی سی جے کے دائرہ اختیار پر جو تحفظات اٹھائے گئے ہیں ان میں پاکستان کی قومی سلامتی کو بھی جواز بنایا گیا ہے۔

اشتر اوصاف نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان نے رواں برس مارچ میں اس طرح کے کیسز میں آئی سی جے کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے سے متعلق اقرار نامے پر دستخط کیے اور کہا کہ پاکستان نے ستمبر 1960 میں ہی آئی سی جے کے دائرہ اختیار سے متعلق غیر مشروط اقرار نامہ کرلیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان نے آئی سی جے میں پیش ہوکر غلطی کی‘

اٹارنی جنرل 1960 میں ہونے والے اقرار نامے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس اقرار نامے میں پاکستان نے کوئی تحفظات ظاہر نہیں کیے اور نہ ہی کوئی استثنیٰ مانگا۔

انہوں نے بتایا کہ اس ڈکلیریشن کے ذریعے آئی سی جے کے لازمی دائرہ اختیار کو از خود ہی پاکستان نے تسلیم کرلیا تھا۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ ’سادہ لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ 1960 میں جو اقرار نامہ کیا گیا اس میں ہم نے کوئی استثنیٰ یا تحفظات ظاہر نہیں کیے‘۔

خیال رہے کہ اٹارنی جنرل کا یہ بیان کلبھوشن یادیو کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف کے عبوری حکم نامے کے بعد سامنے آنے والی تنقید کے بعد سامنے آیا جس میں تجزیہ کاروں نے اس کیس میں پاکستان کی حکمت عملی کو کمزور قرار دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ جیسے ہی بھارت کلبھوشن یادیو کے معاملے کو آئی سی جے میں لے گیا اسی وقت پاکستان کو فوراً 29 مارچ کے اقرار نامے سے دستبردار ہوجانا چاہیے تھا اور اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہیے تھا۔

یاد رہے کہ آئی سی جے نے اپنے عبوری حکم نامے میں پاکستان کو ہدایت دی ہے کہ جب تک اس کیس کا حتمی فیصلہ جاری نہیں کردیا جاتا وہ کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کرسکتا۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ’یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت نے آئی سی جے کے لازمی دائرہ اختیار کو مارچ میں تسلیم کیا اور اس کے پیچھے کوئی بدنیتی ہے لیکن یہ درست نہیں‘۔

مزید پڑھیں: حتمی فیصلہ آنے تک پاکستان کلبھوشن کو پھانسی نہ دے، عالمی عدالت

انہوں نے کہا کہ ’مارچ میں کیے جانے والے اقرار نامے میں تو پاکستان نے پہلی بار فائروالز قائم کیں جس میں قومی سلامتی کے معاملے کو بھی شامل کیا گیا‘۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر آئی سی جے کا فوکس ویانا کنونشن اور آپشنل پروٹوکول تھا جس کے بھارت اور پاکستان دونوں دستخطی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آپشنل پروٹوکول آئی سی جے کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ رکن ممالک کے درمیان تنازع کا تصفیہ کرسکے۔

اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ’رواں برس مارچ میں کیے جانے والے مشروط ڈیکلریشن کے پیچھے کوئی بدنیتی نہیں، اگر ہمیں اس سے دستبردار ہونا ہے تو پھر 1960 کے ڈیکلریشن سے بھی دستبردار ہونا ہوگا جو بغیر کسی استثنیٰ کے آئی سی جے کو دائرہ اختیار دیتا ہے‘۔

علاوہ ازیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کا کہنا ہے کہ آئی سی جے کے پاس کلبھوشن کے معاملے پر بھارتی درخواست پر کارروائی کا اختیار حاصل نہیں کیوں کہ کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی عدالت کلبھوشن کیس کی سماعت نہیں کرسکتی، پاکستان

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار چوہدری نے کہا کہ بھارت کو ملنے والے ریلیف کو تسلیم نہ کرنے کا پاکستان کے پاس مضبوط جواز ہے کیوں کہ آپشنل پروٹوکول کا آرٹیکل 1 کسی ایسے مجرم کو قونصلر رسائی دینے سے متعلق نہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ آئی سی جے کے قانون کے آرٹیکل 26(2) پر عمل نہیں کیا گیا جس کے تحت جو ججز بینچ بناتے ہیں ان کی تعداد کا تعین عدالت متعلقہ فریقین سے منظوری کے بعد کرتی ہے۔

اس کے علاوہ آرٹیکل 31(1) کے مطابق عدالت پر یہ لازم ہے کہ وہ پاکستان کے نامزد کردہ ایڈ ہاک جج کا تقررکرے کیوں کہ ایسا پاکستانی طیارے کو مار گرانے کے معاملے میں 2000 ء میں بھی ہوچکا ہے جب پاکستان اور بھارت دونوں نے اپنی نمائندگی کے لیے ججز کو نامزد کیا تھا۔


تبصرے (0) بند ہیں