ہالینڈ کے کوکن ہاف گارڈن میں ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرتے پھول

ہالینڈ کے کوکن ہاف گارڈن میں ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرتے پھول

رمضان رفیق

زمین کے سینے پر سجے ہوئے حسین رنگوں نے میری نگاہوں کو خیرہ کر دیا تھا، ہر طرف پھیلے گونا گوں رنگ، اتنے رنگوں کے تو مجھے نام بھی نہیں معلوم، قوس قزاح کے رنگوں سے کون واقف نہیں لیکن یہاں پر تو ان گنت رنگوں کی پریاں زمین کے سینے پر رقصاں تھیں، ایسا لطیف رقص شاید تصور کی کسی سرزمین پر ہو، یا تخیل کے کسی سیارے پر، یا شاید پروردگار کی جنت سے کسی تصویر کا عکس دھرتی پر اترا ہو، میں نے اتنی خوبصورتی ایک جگہ کبھی اکٹھی نہیں دیکھی.

قاسمی صاحب نے کہا تھا کہ

اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود

حسن انسان سے نمٹ لوں تو وہاں تک سوچوں

بس ایسے ہی آج آنکھ دنیا کی خوبصورتی میں الجھ گئی تھی، آج میں نے ہالینڈ کا مشہور کوکن ہاف گارڈن دیکھا، جہاں موسم بہار میں ستر لاکھ پھول لگائے جاتے ہیں، میرے دل میں برسوں سے خواہش تھی کہ اس باغ کی سیر کو جاؤں، ویسے تو کئی بار ایمسٹرڈم سے گزر ہوا لیکن ایسا موسم دستیاب نہ ہوا جس میں یہ گلزار کھلا ملے۔

کوکن ہاف گارڈن، ہالینڈ— تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف گارڈن، ہالینڈ— تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف گارڈن، ہالینڈ— تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف گارڈن، ہالینڈ— تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف گارڈن کے پھول خوشنما احساس سے مالا مال کر دیتے ہیں— تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف گارڈن کے پھول خوشنما احساس سے مالا مال کر دیتے ہیں— تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف گارڈن میں بکھرے پھولوں کے رنگ— تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف گارڈن میں بکھرے پھولوں کے رنگ— تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف گارڈن کا ہر پھول اپنی طرف بلاتا محسوس ہوتا ہے — تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف گارڈن کا ہر پھول اپنی طرف بلاتا محسوس ہوتا ہے — تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف باغ گل لالہ ٹیولپ کے پھولوں کی نمائش کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے، یہ باغ مارچ سے مئی تک ہی کِھلتا ہے، اور ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں سیاح اس کے رنگوں سے اپنی آنکھوں اور یادوں کو روشن کرنے آتے ہیں۔ اس باغ میں ہالینڈ میں موجود مختلف ٹیولپ کی اجناس کو نمائش کے لیے رکھا کیا جاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سجایا جاتا ہے۔

اب ٹیولپ کی کہانی بھی سن لیجیئے کہ وہ پھول جو چار پانچ صدیوں پہلے ہالینڈ میں موجود ہی نہیں تھا اس نے یوں اس کو اپنا گھر بنایا کہ شاید اب کوئی یہ یقین کرنے کو بھی تیار نہ ہو کہ دنیا کے اس خطے میں یہ پھول کبھی ہوتا ہی نہ تھا۔

حتیٰ کہ لفظ ٹیولپ کا بھی وجود نہ تھا، ٹیولپان فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب پگڑی یا پگ ہے، سلطنت عثمانیہ کے جانشین ان پھولوں کو بہت محبوب رکھتے تھے۔

1550 کے آس پاس ترکی پر سلیمان دوئم کی حکومت تھی جس کے باغیچے ان خوبصورت پھولوں سے بھرے ہوئے تھے، سلطان نے آسٹریا کے سفیر کو ٹیولپ کے کچھ بیج جنہیں بلب کہا جاتا ہے بطور تحفہ دیے، وہاں سے یہ تحفہ ایک ڈچ شخص کارلس تک پہنچا جس نے 1593 میں پہلا ٹیولپ ہالینڈ کی سر زمین پر کاشت کیا۔

پھولوں کو محبت کی علامت قرار دینے میں کچھ غلط نہیں یہ بھی تو نازک احساس جیسی نزاکت رکھتے ہیں— تصویر رمضان رفیق
پھولوں کو محبت کی علامت قرار دینے میں کچھ غلط نہیں یہ بھی تو نازک احساس جیسی نزاکت رکھتے ہیں— تصویر رمضان رفیق

مرجھائے پھولوں کے بغیر کوئی گلستان بھی تو مکمل نہیں—تصویر رمضان رفیق
مرجھائے پھولوں کے بغیر کوئی گلستان بھی تو مکمل نہیں—تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف کے کھلنے کو بے تاب پھول— تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف کے کھلنے کو بے تاب پھول— تصویر رمضان رفیق

پھولوں کی ترتیب میں رنگوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے — تصویر رمضان رفیق
پھولوں کی ترتیب میں رنگوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے — تصویر رمضان رفیق

پھولوں سے باتیں — تصویر رمضان رفیق
پھولوں سے باتیں — تصویر رمضان رفیق

ٹیولپ بنیادی طور پر ترکی اور چین کے پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن آج تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ٹیولپ کا اگر کوئی تعلق ہے تو صرف اس باغ سے یا پھر بہار سے۔ اس حسن بے پروا کو خبر بھی نہیں کہ وہ کس کے گلے کا ہار ہو جائے یا کس کے جوڑے میں جا سجے۔ اسے تو بس کھلنے سے غرض ہے اور رنگ بکھیرنے سے غرض ہے۔

آج کے دن کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے میرے میزبان ڈاکٹر مزمل اقبال نے کہا تھا کہ شاید ایک دو گھنٹے میں آپ وہاں سے فارغ ہو جائیں گے، لیکن کم و بیش 6 گھنٹے اس باغ کے طول و عرض میں پیدل چلنے کے بعد بھی کئی ایسی کیاریوں پر نظر پڑتی تھی جن کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید اس رنگ کی تصویر نہ لی، شاید یہ رنگ آنکھوں میں سمانے سے رہ گیا ہو۔

کل ٹرپ ایڈوائزر نامی ایک ویب سائٹ پر کسی صاحب کا تبصرہ تھا کہ یہ باغ اوور ریٹڈ ہے، یعنی یہ باغ زیادہ متاثر کن نہیں بس یونہی زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے۔ پڑھ کر دل میں ایک وسوسہ سا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ سفر رائیگاں ہی نہ ہو جائے، ایک اور دوست کہنے لگے کہ اس باغ میں تو بس اقسام کو اکٹھا کیا گیا ہے وگرنہ آپ ایسا کریں کہ سائیکل لیں اور لائیڈن شہر کے اطرف میں نکل جائیں، آپ کو بہت سے ٹیولپ کے کھیت مل جائیں گے۔

ان باتوں کی وجہ سے دل میں ہلکی سے پسپائی سی تھی، داخلہ ٹکٹ 16 یورو تھا اور بس کی آنے جانے کی ٹکٹ 10 یورو کی تھی، کوکن ہاف کے اس باغ کو جانے والی بسیں لائیڈن کے اسٹیشن یا ایمسٹرڈم کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے چلتی ہیں۔

اگر آپ بس ٹکٹ سمیت پیکج لیں تو ایک دو یورو بچائے بھی جا سکتے ہیں، خیر میں تو ڈنمارک سے خصوصی طور پر صرف یہ پھول دیکھنے کے لیے چلا تھا، میرے لیے ٹکٹ وغیرہ کی رقم اس طرح سے اہمیت نہ رکھتی تھی، پھر بھی ایک خدشہ سا تھا کہ سفر کا لطف نہ آئے شاید!

قدرت کی نزاکت، خوشبو اور حسن کے ترجمان یہ پھول ہی تو ہیں— تصویر رمضان رفیق
قدرت کی نزاکت، خوشبو اور حسن کے ترجمان یہ پھول ہی تو ہیں— تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف گارڈن میں ایک خاتون روایتی لباس میں ملبوس— تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف گارڈن میں ایک خاتون روایتی لباس میں ملبوس— تصویر رمضان رفیق

پانی میں خود کو دیکھتے پھول — تصویر رمضان رفیق
پانی میں خود کو دیکھتے پھول — تصویر رمضان رفیق

قدرت کے فن پاروں سے بنے ابن آدم کے فن پارے— تصویر رمضان رفیق
قدرت کے فن پاروں سے بنے ابن آدم کے فن پارے— تصویر رمضان رفیق

چلیے ہزاروں پھول آگے اس راستے پر ہمارے منتظر ہیں— تصویر رمضان رفیق
چلیے ہزاروں پھول آگے اس راستے پر ہمارے منتظر ہیں— تصویر رمضان رفیق

کسی ہمدرد نے مشورہ دیا تھا کہ پھولوں کے اس باغ کو دیکھنے کا سب سے بہترین وقت مئی کا پہلا ہفتہ ہے، کیونکہ اس میں سارے پھول کھل چکے ہوتے ہیں۔

اگر پہلے جایا جائے تو ہو سکتا کہ پھول جوبن پر نہ ہوں، لیکن ہمارے ایک اور دوست کا مؤقف تھا کہ اپریل کے آخری ہفتے میں یہاں تقریبات ہوتی ہیں، پھولوں کی ایک پریڈ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، اور وہ تقریب دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، لیکن مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ باغ کے اندر پھول اس انداز میں لگائے گئے ہیں کہ متعلقہ دورانیہ یعنی 23 مارچ سے 21 مئی تک آپ کو پھول کھلے ہوئے ہی ملیں۔

3 مئی کو جب میں نے اس باغ کو دیکھا تو ابھی کچھ اقسام کے پھول اپنے جوبن پر ہیں اور کچھ بڑھاپے میں، اور کچھ کی تو ابھی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں، اس لیے میرے خیال میں اوسطاً اپریل کا آخری ہفتہ اور مئی کے پہلے ہفتے پر ہی اتفاق مناسب خیال لگتا ہے۔

— تصویر رمضان رفیق

ہر سال باغ کے پھولوں کو کسی تھیم یا ڈیزائن کے حساب سے ترتیب دیا جاتا ہے، اس سال کا تھیم ڈچ ڈیزائن تھا، باغ میں موجود پھول ڈچ ڈیزائن سادگی، نوامیدی، اور تخلیق کی خوبیاں لیے یہاں کے معروف ڈیزائنرز کی فنکارانہ سوچ کو منعکس کر رہے تھے۔

اس باغ کے 70 لاکھ پھولوں کے پیچھے ایک سو سے زائد ڈچ کمپنیاں ہیں جو اپنے بہترین پھولوں کو نمائش میں رکھتی ہیں، اس طرح نہ صرف ایک خوبصورت باغ وجود میں آتا ہے بلکہ ان کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کے لیے ایک عملی جگہ بھی مل جاتی ہے۔

یہاں پر مختلف اسٹالز پر آپ ان کمپنیوں کی مصنوعات آرڈر بھی کر سکتے ہیں اور یوں خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ ہالینڈ دنیا کو اپنی لیاقت کا قائل کرتا نظر آتا ہے۔

اسی سفر میں ایک آئرش بزنس مین سے ملاقات ہوئی جو اپنی فیملی کے ساتھ دوسری مرتبہ اس باغ کو دیکھنے آیا تھا، اس نے کہا جب پہلی بار اس جگہ کو دیکھا تب سے یوں سمجھیں کہ ہر سال یہ جگہ مجھے خود پکارتی ہے، لیکن زندگی کی مصروفیات وقت نہیں دیتیں لیکن اس سال پھر چلا آیا ہوں، اور اس سال کا تھیم اور پھولوں کی ترتیب کی وجہ سے اسے یہ سارا باغ نئے کا نیا لگ رہا تھا۔

میں نے ان خوب رو اور خوب رنگ پھولوں کو دیکھا اور محسوس بھی کیا، فراز کے اس شعر کی طرح:

تیری قربت کے لمحے پھول جیسے

مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں

کوکن ہاف گارڈن کو ڈچ ڈیزائن تھیم کے مطابق سجایا گیا ہے— تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف گارڈن کو ڈچ ڈیزائن تھیم کے مطابق سجایا گیا ہے— تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف کے میں لوگوں کی رش کبھی کم نہیں ہوتی— تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف کے میں لوگوں کی رش کبھی کم نہیں ہوتی— تصویر رمضان رفیق

کوکن ہاف میں پھولوں کا ایک دل — تصویر رمضان رفیق
کوکن ہاف میں پھولوں کا ایک دل — تصویر رمضان رفیق

کاش پوری دنیا ایسی گل و گلزار ہو — تصویر رمضان رفیق
کاش پوری دنیا ایسی گل و گلزار ہو — تصویر رمضان رفیق

مگر یہ سب پھول میری یادوں سے جڑ گئے ہیں، ندی کے پانیوں میں اپنا عکس دیکھتے پھول، پرندوں کی آوازوں پر جھومتے پھول، ہوا کے دوش پر لہلاتے پھول، بارش کے پانیوں میں نہاتے پھول، ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرتے پھول، رنگ برنگے سجیلے پھول، سرخ، سفید، نیلے پیلے پھول، سچ کہیے تو اس وادئ گل میں طبیعت پھول جیسی ہو گئی تھی، مدت پہلے بچپنے کے بھولے بسرے مصرعے پھر سے تازہ ہونے لگے تھے۔۔۔

اے پھول یہ پھول میرے پھول کو دے دینا

اور کہنا یہ پھول ، تیرے پھول نے دیا ہے

یا پھر وہ کہ

پھول لے کر پھول آیا

پھول نے پھول کر کہا

پھول تو تم خود ہو پیارے

پھول لائے کس طرح

اور غالب کی وہ تشبیہ کہ، غنچہ ناشگفتہ کو دور سے نہ دکھا یہ یوں۔ فراز کا وہ مصرعہ کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں، یا وہ لب جو پنکھڑیوں ایسے تھے، سچ میں اگر کوئی شاعر ہوتا تو دیوان لکھ بیٹھتا۔۔۔۔ اور ظہور نظر کی ایک نظم کے چند بولوں کی طرح کہ

سمجھو کہ ہم دو پھول تھے

ایک شاخ پر پھولے پھلے

لازم تھا مرجھانا ہمیں

سمجھو کہ ہم مرجھا چلے۔

حاتم طائی کے سات سوالوں میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ وہ کیا ہے جو ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار دیکھنے کی آرزو ہے۔۔۔آج کل کوئی مجھ سے پوچھے تو یہی کہوں گا کوکن ہاف گارڈن۔


رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔

انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔