Dawnnews Television Logo

فاٹا کا انضمام اور اس کی پیچیدگیاں

کیا حکومت سیاست سے بالاتر ہوکر اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اصلاحات پر عمل درآمد کرے گی؟
اپ ڈیٹ 24 مئ 2017 03:41pm

وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقے (فاٹا) میں اصلاحات کا عمل ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے دو سنگین مسائل نے آگھیرا، پہلا پاناما پیپر لیکس اور دوسرا وزیراعظم نواز شریف کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل (جو یو آئی ف) کے رہنما مولانا فضل رحمٰن کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کی سخت مخالفت۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر فاٹا اصلاحات پر بحث کے لیے خاص طور پر بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اصلاحات کے قانون کی منظوری دی گئی تو وہ ’سب کچھ جام‘ کردیں گے۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی نہ صرف رواج ایکٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ فاٹا کے خیبر پختونخوا سے انضمام کے حوالے سے کلیئر کٹ اور غیر مبہم حکومتی موقف کا مطالبہ کیا۔

اس کی وجہ سے فاٹا اصلاحات کا عمل مزید تاخیر کا شکار ہوجائے گا کیوں کہ 26 مئی کو وفاقی بجٹ آنے کی توقع ہے جس کے بعد جون اور جولائی میں بعد از بجٹ مباحثے ہوں گے جس کے بعد معاملہ اگست تک جائے گا اور اس وقت تک فاٹا اور کے پی کے کو ضم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے زیادہ وقت نہیں بچے گا کیوں کہ 2018 میں عام انتخابات بھی ہونے ہیں۔

باوجود اس کے کہ وزیراعظم نواز شریف کو متعدد سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ریفارم پیکج کا نفاذ کسی صورت بھی آسان ثابت نہیں ہوگا، اس کا نفاذ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور فاٹا کے انضمام کے پانچ سالہ منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے موثر مکینزم کی ضرورت ہوگی۔

اصلاحات کے نفاذ کے دوران سامنے آنے والے آئینی اور سیاسی چیلنجز سے بہتر طریقے سے نمٹ لیا گیا تو یہ قبائلی خطہ خوشحالی کی اس سطح پر پہنچنے کا اہل ہوجائے گا جہاں سے بتدریج وہ ملک کے دیگر حصوں کے برابر آسکے گا۔

پلان کے تحت قبائلی علاقوں کے لیے این ایف سی میں 3 فیصد حصہ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے— فوٹو بشکریہ عبدالمجید گورایا، وائٹ اسٹار
پلان کے تحت قبائلی علاقوں کے لیے این ایف سی میں 3 فیصد حصہ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے— فوٹو بشکریہ عبدالمجید گورایا، وائٹ اسٹار

انضمام بمقابلہ قومی دھارے میں شمولیت

یہ وہ پہلو ہے جہاں بہت سے پیچیدگیاں موجود ہیں۔ اصلاحاتی منصوبے میں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں فاٹا سے منتخب ہونے والے نمائندے خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں جائیں یعنی فاٹا کے انضمام کا عمل ایک سال کے اندر مکمل کرنے کی بات کی گئی۔

اس کے علاوہ منصوبے میں کے پی کے کو اختیار دیے بغیر قبائلی خطے کو آئندہ پانچ برس کے دوران قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات کی گئی جبکہ کے پی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے اسے اس بات کی اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ عبوری دور کی رفتار اور نوعیت کا تعین کرسکے تاکہ ہموار طریقے سے انضمام ہوسکے۔

انتظامی پیچیدگیاں

خیبر پختونخوا اور فاٹا ایسے جڑواں بچے ہیں جن کے کام کرنے کا طریقہ بالکل ہی مختلف ہے، کے پی کے کا جامع آئین موجود ہے، قانونی و انتظامی نظام ہے لیکن فاٹا پر وفاقی حکومت کا براہ راست کنٹرول ہے۔ اس کے علاوہ فاٹا کا اپنا علیحدہ انتظامی نظام ہے جس میں احتساب کا تصور کمزور ہے جبکہ یہ جاگیردارانہ نظام کی طرح کام کرتا ہے اور یہاں پولیٹیکل ایجنٹس کام کرتے ہیں۔

ان دو مختلف علاقوں کو ایک مربوط انتظامی باڈی میں ضم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے انتظامی اور قانونی نظام میں تبدیلیاں کی جائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ان ملازمین کے معاملے کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا جو مختلف قوانین کے تحت کام کرتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جو صدارتی حکم کے ماتحت ملازمت کررہے ہیں۔اس کے لیے ریاستی اختیارات میں توسیع اور توثیق درکار ہوگی جبکہ انتظامی ڈھانچے پر بھی نظر ثانی کرنی پڑے گی تاکہ اسے اس نظام سے ہم آہنگ کیا جاسکے جو کے پی کے میں نافذ ہے۔

سیاسی اور انتخابی ادغام

فاٹا کے حوالے سے اب تک سب سے بڑا چیلنج سیاسی و انتخابی ادغام کے لیے قانون سازی کرنا ہے جو اب تک نہیں کی گئی۔

اس سلسلے میں اصلاحاتی منصوبے میں سفارش کی گئی ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں قبائلی علاقوں سے منتخب ہونے والے نمائندے کے پی کے کی اسمبلی میں بیٹھیں لیکن انتخابی ادغام سے قبل حکومت کو مردم و خانہ شماری کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا کیوں کہ اس کے بغیر فاٹا سمیت ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوسکیں گی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ہوگا کیسے، خیبر پختونخوا کو قبائلی علاقوں تک انتظامی اختیارات دیے بغیر کس طرح فاٹا وفاق کے زیر انتظام رہتے ہوئے کے پی کے اسمبلی کے لیے نمائندگان کا انتخاب کیسے کرسکتا ہے؟ اور اس کا صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگیوں پر کیا اثر پڑے گا؟

فاٹا کے نمائندگان کی کے پی کے اسمبلی میں موجودگی کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا کا فاٹا کے سیاسی اور انتظامی امور پر کوئی کنٹرول نہیں ہوگا، یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے جسے آئین کے آرٹیکل 1، 59 اور 106 میں ترامیم کرکے درست کرنا ہوگا لیکن تاحال اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

آئینی بے قاعدگی

ممکنہ طور پر سب سے پریشان کن معاملہ یہ ہے کہ اصلاحات کے نفاذ کے پانچ سالہ دور کے دوران کس طرح فاٹا کو وفاقی حکومت کے انتظامی کنٹرول کے ماتحت بھی رکھا جائے اور اسے صوبائی اسمبلی کے لیے نمائندگان کو منتخب کرنے کی بھی اجازت دی جائے جبکہ حتمی انضمام کے لیے راہ ہموا کی جائے اور عبوری مدت کےدوران کے پی کے کے وزیراعلیٰ کو قبائلی علاقوں پر انتظامی کنٹرول بھی حاصل نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: ' فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانا چاہیے'

یہ باتیں باہمی طور پر متضاد ہیں اور ناقدین خبردار کرتے ہیں کہ فاٹا کو صوبائی منتظم شدہ قبائلی علاقوں(پاٹا) میں تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو خیبر پختونخوا پہلے ہی اپنے (پاٹا) کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا ہے۔

لہٰذا مکمل انضمام کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہونا چاہیے اور ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکے گا جب تک انتظامی، عدالتی اور سیکیورٹی انفرااسٹرکچر موجود نہ ہو۔

وسائل کی تقسیم اور ترقی

فاٹا اصلاحاتی پیکج میں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) سے 3 فیصد حصہ ملنے کی بات کی گئی ہے جبکہ وفاقی حکومت بھی آئندہ 10 برس تک سالانہ ترقیاتی پروگرام کے اخراجات برداشت کرے گی۔ پلان کے تحت ایک کمیٹی بنائی جائے گی جس کی سربراہی کے پی کے کے گورنر کریں گے جبکہ اس میں خیبر پختونخوا اور فاٹا کے ارکان اسمبلی بھی موجود ہوں گے۔

خیبر پختونخوا کی حکومت جو بالآخر قبائلی علاقوں سمیت 27200 کلومیٹر کا رقبہ اپنے صوبے میں سمائے گی اس کے کردار کی پلان میں وضاحت نہیں کی گئی۔ اس وقت کے پی حکومت سمجھتی ہے کہ فاٹا سیکریٹریٹ اور فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اس بڑی ذمہ داری کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اس سارے معاملے کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

بلدیاتی انتخابات

کے پی حکومت چاہتی ہے کہ فاٹا میں 2017کے آخر تک لوکل باڈیز ایکٹ کے تحت جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوجائیں تاکہ صوبائی اسمبلی پورے نظام سے ہم آہنگ ہوسکے البتہ وفاق کا منصوبہ مختلف ہے، وفاقی کابینہ نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد نئے نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

سیکیورٹی

فاٹا کے مجوزہ پلان میں قبائلی علاقوں کے لیے 20 ہزار لیویز اہلکاروں پر مشتمل فورس تشکیل دینے کی بات کی گئی ہے جو علاقے میں پولیس کے فرائض انجام دے گی تاہم پلان میں اس کا ٹائم فریم اور اس کے بجٹ سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی۔ کے پی حکومت چاہتی ہے کہ ان اہلکاروں کو مستقبل میں صوبے کی پولیس فورس کا حصہ بنادیا جائے۔

خیبر ایجنسی میں واقع ایک چیک پوسٹک پر سیکیورٹی اہلکار مستعد کھڑا ہے
خیبر ایجنسی میں واقع ایک چیک پوسٹک پر سیکیورٹی اہلکار مستعد کھڑا ہے

ڈائریکٹوریٹ برائے ٹرانزیشن اینڈ ریفارمز

اصلاحاتی پلان میں کی جانے والی اہم سفارشات میں سے ایک اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے مخصوص یونٹ کا قیام بھی ہے۔ اس کے برخلاف کے پی حکومت انضمام کے عمل کی نگرانی کے لیے عارضی ادارے کے قیام کی خواہاں ہے جس کی سربراہی وہ خود کرے۔

بہرحال اصلاحاتی ایجنڈے کی ساخت اور طریقہ کار پر کے پی حکومت اور وفاق کے درمیان اتفاق ہوچکا ہے جبکہ صرف ٹائم فریم، قانون سازی اور انتظامی اقدامات کے حوالے سے بعد معاملات پر عدم اتفاق موجود ہے۔

مزید پڑھیں: فاٹا میں مستقبل کے نظام کی بحث

فاٹا کے انضمام کا معاملہ پیچیدہ ضرور ہوسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ یہ ناقابل عمل ہو کیوں کہ اس کے پیچھے سیاسی عزم موجود ہے جو اس عمل کو مکمل ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔

تاہم فاٹا کے انضمام کے بعض حامی کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے، قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کا راج رہ چکا ہے اور اس کا نام بدنام رہا ہے اور اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ چونکہ وقت تیزی سے ختم ہورہا ہے لہٰذا شائد ہمیں ایسا کرنے کا دوبارہ موقع نہ ملے۔

یہ رپورٹ 23 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی