پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں دائر حنیف عباسی کی درخواست پر اعتراض اٹھادیا جبکہ سپریم کورٹ سے کہا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام پر آمادہ ہے۔

سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے موقف اپنایا کہ میرٹ کے مطابق درخواستیں آرٹیکل 184 کے تحت قابل سماعت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے عمران خان سے کیس سے متعلق ہدایات لے لی ہیں، حنیف عباسی کی درخواست قابل سماعت نہیں‘۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ قانون میں غیر ملکی فنڈنگ پر کارروائی کا طریقہ کار درج ہے جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ 3/184 کے تحت نہ سنا جائے‘؟ جس پر انور منصور نے کہا کہ ’جی میں یہی چاہتا ہوں‘۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ قانون کے مطابق حکومت کو تحقیقات کرکے ریفرنس دائر کرنا چاہیے اور سپریم کورٹ پھر اس ریفرنس کے مطابق فیصلہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: غیرملکی فنڈنگ، اثاثے چھپانے پر عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق غیر ملکی فنڈنگ کی ممانعت ہے، سیاسی جماعتوں کے قانون کی شک 15 میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ملک کی یکجہتی اور سلامتی کے خلاف کام کے لیے فنڈنگ نہیں لے سکتی۔

انور منصور کے مطابق اگر کسی سیاسی جماعت کا بیرون ممالک یا ملٹی نیشنل کمپنیوں سے فنڈنگ لینا ثابت ہو جائے تو وفاقی حکومت اس کے خلاف 15 دن کے اندر ریفرنس سپریم کورٹ بهیجوانے کی پابند ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق تحقیقات کے لیے الیکشن کمشن کو اختیار حاصل ہے؟ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ غیر ملکی فنڈنگ کا تعین کرنے کے لیے الیکشن کمیشن ہی مجاز اتھارٹی ہے؟‘

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ ’کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے بعد فارن فنڈنگ کی تحقیقات کا اختیار نہیں رہتا؟ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں، کیا ساڑھے چار سال کے دوران شکایت کی صورت میں الیکشن کمیشن تحقیقات کا اختیار نہیں رکھتا؟‘

پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ اکاؤنٹس کی تفصیلات ہر سال جمع ہوتی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سال گزرنے کے بعد الیکشن کمشن سابقہ فارن فنڈنگ سے متعلق سوال نہیں اٹھا سکتی؟‘

بینچ میں شامل جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کا اختیار رکھتی ہے اسے تحقیقات کا بھی مکمل اختیار ہے۔

مزید پڑھیں: ’عمران خان غیر ملکی فنڈنگ سے پارٹی چلارہے ہیں‘

کمیشن بنانے کی درخواست

تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملے کی جانچ پڑتال کے لیے کمیشن بنادیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’کمشن کیوں بنائیں، الیکشن کمیشن کو کیوں نہ بھجوا دیں‘۔

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ سپریم کورٹ تحقیقات کے لیے کمیشن بنائے ہم تیار ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس طرح کا بیان ہدایات لے کر دیں‘۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کو ہی کمیشن کا درجہ دے دیں تو شاید آپ کو تب بھی اعتراض نہیں ہو گا۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ نعیم بخاری نے کہا کہ جس بینک سے عمران خان نے جمائمہ کو رقم منتقل کی اس کا سرٹیفکیٹ گزشتہ روز ہی آیا ہے جس کی وجہ سے جواب میں تاخیر ہوئی۔

بعد ازاں عمران خان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

دستاویز جمع

علاوہ ازیں عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں 35 صفحات پر مشتمل جواب بھی جمع کرادیا گیا جس میں لندن فلیٹ سے متعلق خریدو فروخت کے معاہدے کی بیان حلفی بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ دستاویز میں جمائما خان کے ساتھ شادی اور طلاق تک کے واقعات پر بیان حلفی، آف شور کمپنی نیازی لمیٹڈ سروس کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات،عمران خان اور جمائما خان کے درمیان بینک اکائونٹس کے ذریعے سیٹلمنٹ پر بیان حلفی اور تفصیلات شامل ہیں۔

9 صفحات پر مشتمل بیان حلفی میں عمران خان نے موقف اپنایا کہ 1971 سے 1982 تک کمائی گئی رقم کرکٹ کے کھیل سے حاصل کی اور اس پر تمام ٹیکس ادا کیے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی کرکٹ سے کمائی گئی رقم کے ذریعے 1983 میں ایک بیڈروم پر مشتمل فلیٹ خریدا اور نیازی سروسز لمیٹد کا صرف ایک فلیٹ ہے۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ جب برطانوی فلیٹ بیچا گیا تو وہ وہاں کے رہائشی نہیں تھے اسی لیے ٹیکس ادا نہیں کیا۔

عمران خان کے مطابق انہوں نے 1995 میں جمائمہ سے شادی کی، طلاق کے وقت برطانوی قانون کے مطابق مشترکہ اثاثے برابر تقسیم ہوتے ہیں جبکہ شرعی قانون کے تحت سابقہ شوہر سابقہ بیوی کے اثاثوں کا حق نہیں رکھتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ جمائمہ سے طلاق کے بعد انہوں نے بیوی سے اثاثے لینے سے انکار کیا جبکہ جمائمہ نے بنی گالہ کی جائیداد اپنے اور بچوں کے لیے لی تھی۔

بیان حلفی میں چیئرمین تحریک انصاف نے بتایا کہ 2002 کے انتخابات میں انہوں نے کاغذات نامزدگی میں 65 لاکھ ایڈوانس ٹیکس ظاہر کیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’بنی گالہ جائیداد بیوی کے نام تھی، 2002 سے مجھ پر شریف خاندان یہودی لابی کے الزامات عائد کر رہا ہے،اس وجہ سے جمائمہ دونوں بچوں کو لے کر لندن واپس چلی گئی،شادی بچانے کے لیے میں بھی مسلسل لندن کا سفر کرتا رہا تاکہ جمائمہ کو واپس آنے کے لیے راضی کر سکوں‘۔

بیان حلفی میں کہا گیا کہ’2002 میں فروخت کے معاہدے کے بعد لندن فلیٹ کی فروخت کی رقم قسطوں میں ادا کی، بیوی کی طرف سے لی گئی ادھار رقم فلیٹ کی فروخت کے بعد واپس کی‘۔

بیان حلفی میں عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ ’راشد علی خان میرا قریبی دوست ہے،اس نے جمائمہ سے لی گئی رقم ڈالرز کی صورت میں واپس کی، جمائمہ کو رقم ان کے نجی بینک اکاؤنٹ میں دی گئی‘۔

انہوں نے عدالت کو بیان حلفی میں بتایا کہ ’جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سٹی بینک کو ہدایات جمائمہ خان نے دیں اور جمائمہ کی ہدایات سے رقم نجی امریکی بینک سے راشد خان کے اکاؤنٹ میں گئی‘۔

عمران خان نے بتایا کہ ’5 لاکھ 62 ہزار پاؤنڈز میں نے بینک کے ذریعے جمائمہ کو منتقل کیے، رقم کی منتقلی معاہدے کے تحت تھی، فلیٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم پاکستان لائی گئی، ایک لاکھ 30 ہزار پاونڈ بچوں کی رہائش کے خرچ کے طور پر استعمال کیے‘۔

عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’میری جمائمہ سے علیحدگی تکلیف دہ تھی، طلاق کے بعد بھی جمائمہ سے اچھے تعلقات رہے، 1992 میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کرکٹ کمنٹری ،لیکچرز اور چار کتابوں کی آمدنی سے اپنی ضروریات پوری کیں‘۔

بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ بطور چیئرمین تحریک انصاف واضح کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس درست ہیں اور پی ٹی آئی اکاؤنٹس کے غیر ملکی آڈٹ سرٹیفکیٹس سچائی ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔

خیال رہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے سامنے اپنے اثاثے اور آف شور کمپنیاں ظاہر نہ کرنے جبکہ مبینہ طور پر بیرون ملک سے حاصل ہونے والے فنڈز سے پارٹی چلانے کے الزامات پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہے۔

پاناما پیپرز کیس کے ختم ہونے کے فوراً بعد 28 فروری کو حنیف عباسی کی جانب سے عدالت میں اس پٹیشن کی جلد سماعت کے لیے درخواست جمع کرائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: عمران خان کی آف شور کمپنی کا ریکارڈ عدالت میں جمع

حنیف عباسی کا اپنی درخواست میں الزام ہے کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات میں اپنی آف شور کمپنی 'نیازی سروسز لمیٹڈ' سے متعلق معلومات نہ دے کر انکم ٹیکس آرڈیننس 1979 کی خلاف ورزی کی ہے۔

پٹیشن میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ 2014 میں اپنے اثاثوں کی تفصیلات میں عمران خان نے اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر لگژری اپارٹمنٹ کی خریداری میں لگائے گئے 2.97 ملین کو ظاہر نہیں کیا، جو پیپلز ایکٹ 1976 کی دفعات کی خلاف ورزی ہے، جس کے باعث انہیں نااہل قرار دیا جانا چاہیئے۔


تبصرے (0) بند ہیں