وزارت پانی و بجلی نے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں 480 ارب روپے کے زیر گردش قرضے یا سرکولر ڈیٹ کلئیر کیے گئے تھے لیکن یہ دوبارہ 401 ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔

خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزارت پانی و بجلی نے سرکولر ڈیٹ کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی۔

وزارت پانی و بجلی نے کمیٹی کو بتایا کہ اسوقت گردشی قرضے 4 سو ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کو بجلی کی پیداوار کی مد میں 237 ارب روپے ادا کرنے ہیں جبکہ گیس کی مد میں 11 ارب روپے اور تیل کی مد میں 99 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

مزید پڑھیں: پانچ سو ارب کے قرضے، دو ماہ میں خاتمے کا عندیہ

وزارت کے حکام نے بتایا کہ اسوقت بجلی کی پیداواری لاگت 8 روپے 52 پیسے فی یونٹ ہے جو صارفین کو 11 روپے 97 پیسے فی یونٹ کے حساب سے دی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہائیڈل پاور سپلائی سے 4 روپے 11 پیسے، آئی پی پیز ہائیڈل سے 8 روپے 80 پیسے اور کوئلے سے 11 روپے 65 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ڈیزل سے 16 روپے 19 پیسے، فرنس آئل سے 11 روپے 76 پیسے اور گیس سے 8 روپے 86 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔

وزارت پانی و بجلی کا کہنا تھا کہ نیوکلئیر سے 5 روپے 36 پیسے، ہوا سے 17 روپے 34 پیسے، سولر سے 16 روپے 92 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ نیپرا کی جانب سے 15 اعشاریہ تین فیصد نقصانات کی اجازت ہے اصل نقصانات 17 اعشاریہ 9 فیصد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال کا اقتصادی سروے جاری

انھوں نے کہا کہ ترسیلی نقصانات کے باعث چار سال میں 135 ارب 54 کروڑ روپے سے زائد نقصان ہو چکا ہے۔

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ موجودہ حکومت نے 480 ارب روپے کا سرکولر ڈیٹ کلئیر کیا دوبارہ 401 ارب تک پہنچ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گردشی قرضوں میں 135 ارب روپے کے ترسیلی نقصانات، 182 ارب روپے بلوں کی مد میں جبکہ 62 اعشاریہ 45 سبسڈی کی مد میں بقایا ہیں۔

حکام نے مزید بتایا کہ سرکولر ڈیٹ میں کے الیکٹرک کے 22 ارب روپے کے واجبات بھی شامل ہیں۔

اس موقع پر رکن قومی اسمبلی میاں عبدالمنان نے کہا کہ کے الیکٹرک معاہدے کے باوجود بجلی پیدا کیوں نہیں کررہا جس پر وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ کے الیکٹرک کا شنگھائی الیکٹرک سے معاہدہ معطل کا شکار ہے۔

میاں منان نے کہا کہ کے الیکٹرک نہ کراچی کے شہریوں کو بجلی دے رہا نہ واجبات ادا کررہا جبکہ اربوں روپے ملک سے باہرمنتقل کیے جارہے ہیں۔

حکام نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے ساتھ 650 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا معاہدہ ختم ہوچکا ہے تاہم معاہدہ ختم ہونے کے باوجود سپلائی دی جارہی ہے۔

انھوں ںے کمیٹی کو بتایا کہ سبسڈی سمیت دیگر کی مد میں حکومت سے 62 ارب روپے لینے ہیں، وزارت خزانہ کو واجبات کلیئر کرنے کو کہا ہے، پیسے مل گئے تو آئی پیپیز اور پی ایس او کے کافی واجبات ادا کردیئے جائیں گے۔

رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر نے کہا کہ پانچ ہزار میگاواٹ اضافی بجلی شامل کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ وہیں پر ہے، یہ کہنا غلط ہے کہ طلب بڑھ گئی، اگر اضافی بجلی آئی ہے تو صارفین تک کیوں نہیں پہنچ رہی، میں طلب بڑھنے کے جواز کو نہیں مانتا۔

خورشید شاہ نے کہا کہ لوگ خود بھی سولر انرجی کی طرف جانا چاہتے ہیں، کیا حکومت عوام کو اس معاملے پر سبسڈی دے رہی ہے۔

اجلاس میں خورشید شاہ نے نیپرا حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2011 میں غازی بروتھا کا منافع 135 ارب تھا، جس کے بعد 2 روپے قیمت میں اضافہ کیا گیا، بتائیں اس سال کا کتنا منافع ہوا ہے جس پر نیپرا حکام کمیٹی کو جواب نہ دے سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں