واشنگٹن: امریکی انٹیلی جنس چیف نے امریکی کانگریس کو خبردار کیا ہے کہ بھارت سرحد پار حملوں کو بہانا بناکر پاکستان کے خلاف جارحیت پر اتر سکتا ہے اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر دونوں ممالک کے درمیان مارٹر شیل فائر کرنے کے واقعات خطے کے دو ہمسایہ جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاستوں کے درمیان براہ راست تنازع کا باعث ہوسکتے ہیں۔

یہ بات نئی دہلی اور اسلام آباد کے جاری بیانات کے تناظر میں امریکی سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران بتائی گئی، ان بیانات میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر جوابی حملوں کے دعوے کیے تھے۔

امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل وینسنٹ اسٹیوورٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ 'بھارت، پاکستان کو سفارتی طور پر دنیا سے الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے اور اس کیلئے وہ مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور بھارت، اسلام آباد پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگا کر تادیبی کارروائی کا ارادہ بھی رکھتا ہے'۔

اس موقع پر ڈائریکٹر فار نیشنل انٹیلی جنس ڈینیل آر کوسٹس نے خبردار کیا کہ 'ایل او اسی پر دونوں جانب سے فائرنگ کے واقعات میں اضافہ، جس میں مارٹر شیل فائر بھی شامل ہیں، دونوں جوہری ہمسایہ ممالک کے درمیان غیر ارادی جنگ کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں'۔

دونوں عہدیدار سینیٹرز کو امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے خطرے کی تشخیص برائے 18-2017 پر بریفنگ دے رہے تھے، اسے وہ عالمی طور پر امریکیوں پر ممکنہ دہشت گرد گروپوں کے حملوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

دو روز قبل پاک فوج نے بھارتی آرمی کے ان دعوؤں کی ترید کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک آپریشن کے دوران ہندوستانی فورسز نے ایل او سی پر ایک پاکستانی پوسٹ کو تباہ کیا، بھارتی جنرل اشوک نورالا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کارروائی کا مقصد 'کشمیر میں دہشت گردوں کی تعداد میں کمی کرنا ہے تاکہ نوجوانوں کو اسلحہ اٹھانے سے دور رکھا جاسکے'۔

پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی اپنی سرزمین کو دہشت گردی اور دوسرے ممالک پر حملوں میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا، امریکی جنرل وینسنٹ اسٹیوورٹ نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ بھارت میں 'بڑے دہشت گردی کے حملوں' کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر، کشمیر میں تشدد اور دونوں ممالک کے دو طرفہ سفارتی تعلقات کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ سمتبر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی بیس کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعد نئی دہلی نے ایل او سی پر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’2016 میں ایل او سی پر بھارتی اور پاکستانی فورسز کے درمیان متعدد مرتبہ بھاری ہتھیاروں کا استعمال ہوا اور دونوں نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک بدر کیا اور ان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا‘۔

انھوں نے خبردار کیا کہ ایک اور دہشت گردی کا واقعہ دونوں ممالک میں جنگ کا باعث ہوسکتا ہے۔

ڈائریکٹر کوسٹس نے کمیٹی کو بتایا کہ گذشتہ سال دہشت گردی کے دو بڑے حملوں کے باعث بھارت اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوگئے تھے جو تاحال کشیدہ ہیں، ان حملوں کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ پاکستان کی سرزمین کو پار کر کے کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے 2017 میں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، خاص طور پر بھارت میں ہونے والا ایک بڑا دہشت گردی کا حملہ اس میں اضافہ کرسکتا ہے جس کے حوالے سے نئی دہلی متعدد مرتبہ پاکستان کے ملوث ہونے کے الزامات لگائے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے جنرل اسٹوورٹ کا کہنا تھا کہ 2017 میں پاکستان میں مزید پیرا ملٹری اور انسداد دہشت گردی آپریشنز کے ذریعے ملک کی مغربی سرحدوں سے روایتی بغاوت منتقل ہوسکتی ہے۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ اس طرح کے آپریشنز کے ذریعے عسکریت، فرقہ وارانہ، دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروپوں میں کمی آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان مخالف قوتیں اپنے دباؤ کو برقرار رکھنے کیلئے آسان اہداف پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔

جنرل اسٹوورٹ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام جاری ہے اور یہ مستقل طور پر امریکی تشویش کا باعث ہے، ’ہمیں اس اضافے پر تشویش ہے، ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے ٹیکٹکل نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے منسلک ڈاکٹرائن اور موروثی سیکیورٹی ایک مسئلہ اور پائیدار خطرہ ہے‘۔

تاہم انھوں نے ساتھ ہی یہ بات تسلیم کی کہ ’پاکستان اپنی جوہری سیکیورٹی کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور وہ اس کو درپیش سنگین نوعیت کے خطرے سے واقف ہے‘۔

دوسری جانب پاکستان کی صورت حال پر ڈائریکٹر کوسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجود دہشت گرد گروپس ’خطے میں امریکی مفاد کیلئے خطرہ ہیں اور وہ بھارت اور افغانستان میں مستقل حملوں کیلئے منصوبہ بندی کررہے ہیں‘۔

ڈائریکٹر کوسٹس کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ممکنہ طور پر اپنی داخلی سیکیورٹی کو بہتر بناسکتا ہے تاہم اسی دوران پاکستان مخالف گروپ ممکنہ طور پر پاکستان میں آسان اہداف کو توجہ کا مرکز بنا سکتے ہیں‘۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جماعت الحرار، القاعدہ برصغیر اور لشکر جھنگوی، وہ گروپس ہیں جو پاکستان کی داخلی سیکیورٹی کیلئے ممکنہ طور پر بڑا خطرہ ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ دہشت گردوں کو اضافی ٹارگٹس فراہم سکتے ہیں۔


یہ رپورٹ 25 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں