اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جمعہ (26 مئی) کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے جانے والا بجٹ 14 جون کو حتمی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

یہ معاملہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندگان کے درمیان ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں افہام و تفہیم کے ساتھ طے پایا جس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کر رہے تھے۔

اس اجلاس میں وزیر قانون زاہد حامد، وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد، وفاقی وزیر برائے کشمیر امور چوہدری برجیس طاہر، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی شیریں مزاری اور غلام سرور خان، متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) کے شیخ صلاح الدین، جماعت اسلامی (جے آئی) کے صاحبزادہ طارق اللہ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چوہدری محمد اشرف اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے شہاب الدین خان شامل تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی تاریخ کے 'سب سے بڑے' ترقیاتی بجٹ کی منظوری

اجلاس کے دوران تمام نمائندگان کے درمیان یہ طے پایا کہ وفاقی بجٹ 18-2017 پر بحث 29 مئی سے شروع ہوجائے گی جسے وفاقی وزیر خزانہ 9 جون کو ختم کریں گے۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق گرانٹس کے مطالبات پر ووٹنگ 10 جون کو شروع ہوجائے گی جو 14 جون تک جاری رہے گی۔

گرانٹس کے مطالبات پر ووٹنگ کو بجٹ سیشن کے دوران سب سے اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے جس میں اپوزیشن کو وزارتوں پر تحریک التوا لانے کا موقع ملتا ہے۔

یہ وہ مرحلہ ہے جہاں پر اپوزیشن کو حکومتی کارکردگی پر تنقید کرنے کا موقع ملتا ہے، اس کے جب علامتی طور پر ہر ڈویژن اور وزارت کے گرانٹس کے مطالبات پر 10 روپے یا 100 روپے کی کٹوتی ہوتی ہے۔

روایتی طور پر اپوزیشن کے ارکان حکومت کے ساتھ افہام و تفہیم سے اہم وزارتوں پر تحریک التواء جمع کراتے ہیں جبکہ اس ووٹنگ کے دوران حکومت اور اپوزیشن اسمبلی میں تمام ارکان کی شرکت کو یقینی بناتے ہیں۔

بعد ازاں قومی اسمبلی کے سیشن کے دوران اراکیین نے عبدالرحیم مندوخیل کو خراج عقیدت پیش کیا جو گذشتہ ہفتے کوئٹہ میں انتقال کر گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 18-2017 میں پاکستان مالی طور پر مضبوط ہوگا: رپورٹ

عبدالرحیم مندوخیل نے 2013 کے عام انتخابات میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ 260 سے الکیشن میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ ترمیمی کمپنیز بل 2017 منظور کرلیا، یہ بل قومی اسمبلی سے پہلے ہی منظور کیا جا چکا تھا تاہم حکومت کو سینیٹ کی جانب سے کچھ ترامیم کے ساتھ منظور ہونے کے بعد اس بل کو واپس اسمبلی میں لانا ضروری تھا۔

اس بل کی منظوری کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن ارکان بالخصوص سید خورشید شاہ اور شیریں مزاری کو کچھ دلچسپ دلائل بھی دیئے۔

تاہم اپوزیشن نے کورم کو اعتماد میں لیے بغیر بل کو منظور کرنے کے حکومتی اقدام پر احتجاج کیا، حالانہ اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی تھی تاہم اس مخالفت میں کورم کا ذکر نہیں تھا بلکہ صرف حکومت کو وزراء کی غیر حاضری پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: ’پاکستان2050تک 16ویں بڑی معیشت‘

ایم کیو یم کی ایف آئی اے کی کارروائی پر تنقید

اسمبلی میں بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی نے وزارت داخلہ کی ہدایات پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے مبینہ طور پر فوج کو بدنام کرنے کے الزام میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی مذمت کی۔

ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی نے کہا کہ ان ہدایات نے لوگوں کے بنیادی حقوق ’جو انہیں آزادی اظہار رائے کی آزادی دیتے ہیں‘ کی خلاف ورزی کی ہے، انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اس متنازع سائبر کرائم قانون کی مدد سے اپنے سیاسی حریف کو نشانہ بنا رہی ہے۔

انہوں نے باور کرایا کہ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے اس سائبر کرائم بل کی ہمیشہ مخالفت کی کیونکہ اسے خدشات تھے کہ اس قانون کا سیاسی مقاصد کے لیے غلط استعمال کیا جا سکتا تھا۔

سید علی رضا عابدی نے کہا کہ ایک طرف تو نوجوان نسل ایف آئی اے کی جانب سے ہراساں کی جارہی ہے جبکہ دوسری طرف کالعدم تنظیمیں سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اس موقع پر موجود تھے تاہم انہوں نے اس سیشن سے خطاب نہیں کیا۔


یہ خبر 25 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں