کراچی میں 'پراسرار' بُو کی وجہ سامنے آگئی

اپ ڈیٹ 07 جون 2017
اس آبی حیات کو عام زبان میں 'سی اسپارکل' کا نام دیا جاتا ہے—فوٹو/ ڈان
اس آبی حیات کو عام زبان میں 'سی اسپارکل' کا نام دیا جاتا ہے—فوٹو/ ڈان

کراچی: ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف-پی) نے چند روز قبل شہر قائد کی فضا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی 'پراسرار' بُو کی وجہ آبی حیات کے گلنے سڑنے کو قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ یہ بدبو شہر کی ساحلی پٹی کے قریب واقع جنوبی، شرقی و وسطی اضلاع میں زیادہ محسوس کی گئی تھی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ساحل پر سبزے کی صورت میں موجود آبی حیات کی کالونی جنہیں 'بُلوم' کہا جاتا ہے، رواں فروری کے آغاز سے دکھائی دینے لگیں جبکہ مارچ و اپریل تک ان کی تعداد میں واضح حد تک اضافہ ہوگیا، اس آبی حیات کی موجودگی اس قدر تھی کہ چند علاقوں میں سمندری پانی کا رنگ تبدیل ہوکر بالکل سبز ہوگیا۔

اس آبی حیات کی شناخت 'Noctiluca scintillans' کے نام سے کی گئی جسے عام زبان میں 'سی اسپارکل' کا نام دیا جاتا ہے، اس آبی حیات کو جب چھیڑا جائے تو یہ ایک مخصوص روشنی خارج کرتی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان میں فشریز کے تکنیکی مشیر محمد معظم کہتے ہیں کہ 'یہ پہلا موقع ہے کہ اس آبی حیات کے گلنے سڑنے کے نتیجے میں اتنی بدبو پیدا ہوئی کہ لوگوں نے اسے محسوس کیا'۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پھیلی عجیب بُو سے شہری پریشان

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ 'رواں سال فروری سے ہی ماہی گیروں کی بڑی تعداد نے پانی کے رنگ میں ہونے والی تبدیلی اور بحیرہ عرب میں تیرتی اس آبی حیات کی کالونیز کی موجودگی کی نشاندہی کی تھی، اب یہ بُلوم مررہا ہے اور اس سے بدبو اٹھ رہی ہے'۔

واضح رہے کہ اس بُلوم کی موجودگی کی رپورٹس عمان سے بھی موصول ہوئی ہیں جہاں یہ جھینگوں سمیت مچھلیوں کی چند اقسام کی موت کی وجہ بنا تاہم پاکستان میں آبی جانوروں کی بلوم سے متاثر ہونے کی کوئی رپورٹس سامنے نہیں آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ساحل پر اس آبی حیات کی موجودگی کئی بار سامنے آچکی ہے۔

محمد معظم کے مطابق 'عموماً یہ بلوم سال میں دو بار نظر آتا ہے اور اس کی دوصورتیں ہیں (سرخ/نارنجی یا سبز)، اگر یہ بلوم زہریلا ہو تو یہ کئی مچھلیوں اور سیپیوں کے مردہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں پھیلی پُراسرار بو: ٹوئٹر صارفین کے مزاحیہ تبصرے

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال اکتوبر-نومبر میں یہ بلوم گوادر میں بڑی تعداد میں مچھلیوں کی ہلاکت کا سبب بنا تھا لیکن یہ رپورٹس منظرعام پر نہیں آئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مئی کے آخر میں جنوب مغربی مون سون کے زیراثر ہواؤں کے طریقہ کار اور رُخ میں ہونے والی تبدیلی بلوم کے گلنے سڑنے کا سبب بنی جس سے کراچی کے ساحلی علاقوں میں عجیب سی بُو محسوس کی گئی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سینئر ڈائریکٹر رب نواز کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں ان بُلومز کی فریکوئنسی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی یا آلودگی ہوسکتی ہے اور اس حوالے سے تحقیق کی جانی ضروری ہے'۔


یہ خبر 3 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 03, 2017 03:47pm
یہ بو سوئی سدرن گیس کمپنی کی اس لیکیج کی بھی ہوسکتی ہے جس کی ہم کمپلین کرا کرا کر تھک گئے۔۔۔۔ اس سے حادثے کا بھی خطرہ ہے مگر سوئی سدرن والوں نے کے الیکٹرک کی روش اختیار کرلی ہے، ڈان کے توسط سے درج کرا رہا ہوں کہ کسٹمر نمبر(1) 0000145050 کے گھر کے قریب زمین سے انتہائی زیادہ گیس لیک ہورہی ہیں۔۔۔۔ تمام علاقے والے پریشان ہیں ، سوئی سدرن سے امید ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ خیرخواہ سوئی سدرن نے 3 دن بعد اب تک اس کا نوٹس نہیں لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ خیرخواہ