پھل بائیکاٹ پر دو گروپ بن چکے ہیں، ایک 'انسانی ہمدردی' گروپ ہے اور دوسرا بظاہر 'شیطانی گروپ' ہے۔ انسانی ہمدردی گروپ کے دلائل سن کے فرانس کی ملکہ یاد آ جاتی ہے جس نے کہا تھا کہ 'اگر لوگوں کو روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے،' یعنی ان کے دلائل یہ ہیں کہ غریب پھل فروشوں کے خلاف احتجاج کیوں؟

پیپسی، مکڈونلڈز، نیسلے، جانی والکر، پرل کانٹینینٹل، کھادی، کے ایف سی، ہونڈا، بی ایم ڈبلیو، فراری اور لمبرگینی وغیرہ کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟ غریب پھل فروش کے جائز منافع کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہو۔

مزید یہ کہ، جو ٹِن پیک میں پھل ملتے ہیں اس پہ کیوں نہیں بولتے۔ بس پھر کیا تھا، اِدھر سے کوئی بولا پھل فروش بیچارے بہت غریب لوگ، اُدھر سے جواب آیا کہ فلاں فلاں کروڑ پتی پھل فروش فلاں فلاں جگہ رہتا ہے۔

عثمان قاضی فرماتے ہیں کہ اتنی سول سوسائٹی بنی پھرتی ہے، خود صبح تڑکے اٹھ کے منڈی جائے تو دو دن میں سول سوسائٹی کی طبیعت اٹن شن ہوجائے گی۔

کسی نے فرمایا کہ اتنا ہی پھل فروش کماتے ہیں تو لوگ پھر ٹیچنگ، ڈاکٹری، کامرس وغیرہ وغیرہ چھوڑ کے پھلوں کی ریڑھی ہی کیوں نہیں لگاتے۔ اردو میں محاورہ ہے 'جتنے منہ، اتنی باتیں' لیکن یہاں تو اس سے بھی معاملہ چار آٹھ ہاتھ آگے پہنچ چکا ہے یعنی جتنے منہ اس سے تقریباً پچاس گنا زیادہ باتیں۔

یعنی ہر کسی نے اپنا حصہ بقدر جثہ سے بھی کہیں زیادہ ڈال دیا ہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا کہ:

'کچھ لوگ لکھ رہے ہیں جن کو پڑھنا چاہیے'

اور یہاں صورتحال یہ ہے کہ کئی ایسے افراد نے معاشرے میں لوگوں کو راہ دکھانے کا ٹھیکہ لے لیا ہوا ہے جن کی اپنی آنکھیں بھی پوری نہیں کھل پائیں۔

بندہ خود کو ان سب کے اخلاقی پتھروں کے سامنے پیش کرتا ہے، جن کو بچپن سے آج تک یہی پڑھایا، سنایا اور بتایا گیا کہ چیزیں سفید یا سیاہ ہی ہوتی ہیں اور ہمیشہ سفید ہی مکمل اچھائی اور سیاہ ہی مکمل برائی ہوتی ہے اور ہمیں ہمیشہ اچھائی کے راستے پر رہنا چاہیے جبکہ برائی سے اس حد تک دور رہنا چاہیے کہ لعن طعن کرنے کا موقع کبھی جانے نہ پائے.

لیکن کبھی بھول چوک سے بھی برائی کے قریب ہو کر اسے سمجھنے کا موقع ملے بھی تو ناک منہ پہ رومال رکھ کر برائی سے جتنی جلدی اور جتنا زیادہ دور بھاگا جا سکے بھاگ جائیں۔ چنانچہ کئی صاحبانِ شعور و قلم نے فیصلہ کر لیا ہے اور اسے پورے زور شور سے آگے پھیلا رہے ہیں کہ پھل فروش اچھائی ہے اور بائیکاٹ برائی۔

یہاں تک بھی ٹھیک تھا، لیکن جو بھی دلائل دیے جا رہے ہیں وہ یہی بتاتے ہیں کہ آپ کا دنیا سے تعلق صرف بذریعہ فیس بک ہی ممکن ہے، جہاں پر پوسٹ کی گئی فلٹرڈ تصویریں آپ کے تجزیے پر شدت سے اثر انداز ہوتی ہیں، جو کہ زیادہ تر دوست کے گھر یا پرائی گاڑی کے پاس کھڑے ہو کر کھینچی جاتی ہیں۔

خواتین و حضرات! معاشرہ وہ نہیں ہے جو ہمیں ٹی وی اور دیگر چینلز کے سیریلز میں دکھایا جاتا ہے بلکہ اصل معاشرہ وہ ہے جو آپ کے اردگرد بسا ہوا ہے۔

جس اشرافیہ کی بات کی جاتی ہے وہ بمشکل دو فیصد ہو گی وگرنہ بہت سارے سفید پوشوں کا یہ عالم ہے کہ پانچویں روزے تک بھی ان کو فروٹ یا فروٹ چاٹ دیکھنی نصیب نہیں ہو سکی اور ان لوگوں کا تو ذکر ہی کیا جنہیں رمضان کی افطاری پھلوں سے سجانے سے زیادہ اس چیز کی فکر ہوتی ہے کہ شام کو کھانا ٹھیک سے مل پائے گا کہ نہیں۔

یہ بلکل عام فہم بات ہے کہ پھل کے نرخوں پر عموماً وہی لوگ چیخ رہے ہیں، جن کو سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ہے اور حد سے بڑھنے کی ان کو بجٹ اجازت نہیں دیتا۔

اب اگر یہ منطق مان لی جائے کہ ان کو پھل فروشوں کے ناجائز منافع پر احتجاج نہیں کرنا چاہیے تو پھر آپ کو جنرل اسٹور سے دو نمبر چیزیں بھی ہنسی خوشی خرید لینی چاہئیں، گھر میں تعمیراتی کام ہو تو مستری، مزدور نہیں بھی کام ٹھیک کرتے تو کیا ہوا، ہمیں اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ہنسی خوشی انہیں پیسے دے دینے چاہئیں، آخر غریب لوگ جو ہیں بچارے۔

میں اپنا ایک ذاتی تجربہ شئیر کرنا چاہوں گا، جب ہم گھر بنوا رہے تھے تو ہم نے کام ٹھیکے پر دیا اور ٹھیکے پر جب کام ہو تو ساری ذمہ داری ٹھیکے دار کی ہوتی ہے، لیکن دو وقت کا کھانا ہمارے گھر سے سب مستریوں اور مزدورں کو ملتا تھا اور ایسے ہی اہتمام سے جیسے مہمانوں کو دیا جاتا ہے.

اب نیک اور اچھے لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ مزدوروں کو کھانا کھلا کر جتایا جا رہا ہے، لیکن مقصد کھانے کا بتانا نہیں تھا بلکہ یہ بتانا تھا کہ ان لوگوں نے ہمیں اتنا نقصان پہنچایا کہ ان کو کام چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

جو لوگ کھادی، مکڈونلڈز، جانی واکر وغیرہ کی مثالیں پیش کر رہے ہیں وہ پھر سنی سنائی کہانی ہی بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کلاس کا یہ لائف اسٹائل ہے وہ ریڑھیوں پر پھلوں کا بھاؤ تاؤ نہیں کرتی پھرتی اور نہ ہی پھلوں کی قیمت ان لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔

لہٰذا دانشوران سے گزارش ہے کہ کوئی دلیل ایسی بھی دیں جو یا پورا تیتر ہو یا پورا بٹیر، یوں ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر مقبول بیانیے کو دہرانہ، سقراط کی سنت تو نہیں ہے۔

افلاطون نے کہا تھا کہ اچھے ذہن کی علامت یہ ہے کہ وہ کسی بھی خیال سے اتفاق یا اختلاف کیے بغیر اس پر غیر جانبدار ہو کر سوچ بچار کرتا ہے لیکن اس پھل بائیکاٹ کہانی میں متحرک دانشورانِ ملک و ملت میں کم از کم مجھے تو بھیڑ چال ہی نظر آئی۔

ان دانشوروں نے فیس بک کی بورڈ پر دانشوری کے علاوہ شاید ہی بنفسِ نفیس بازار کا چکر لگایا ہو؟ کبھی دالیں، سبزی، صابن، شیمپو اور گوشت وغیرہ لینے گئے؟ اور کیا ان کو پتہ ہے کہ ان سب چیزوں میں شدید دو نمبری ہوتی ہے؟ گوشت والی کہانی بھی سب کے سامنے ہی ہے کہ کیا کیا کچھ ہمیں کھلایا جا چکا ہے۔

تو بھائیو اور بہنو، زیادتی کو زیادتی، ظلم کو ظلم اور بے ایمانی کو بے ایمانی ہی کہا جانا چاہیے، اگر مگر چونکہ چنانچہ بھی دل کھول کر ڈالیں لیکن یہاں تو پہلے سے ہی تصور کر لیا گیا کہ پھل بائیکاٹ کی کہانی 'علی گڑھ کے لونڈوں کی سازش ہے۔'

تبصرے (1) بند ہیں

sheraz ali Jun 05, 2017 11:55am
aik boht achi tahrerr awami shaaour k leye