جہلم: لندن حملے میں ملوث پاکستانی کے گھر میں سرچ آپریشن

07 جون 2017
اہل علاقہ جہلم میں موجود خرم شہزاد بٹ کے سابقہ گھر کے باہر موجود ہیں—فوٹو: ڈان اخبار
اہل علاقہ جہلم میں موجود خرم شہزاد بٹ کے سابقہ گھر کے باہر موجود ہیں—فوٹو: ڈان اخبار

گجرات: پاکستانی انتظامیہ نے لندن برج حملے میں مبینہ طور پر ملوث خرم شہزاد بٹ کے اہل خانہ کا گھر اور جہلم میں موجود ان کے ماموں کے ریسٹورنٹ کی نشاندہی کرلی تاہم اب تک اس حوالے سے کوئی گرفتاری سامنے نہیں آئی۔

واضح رہے کہ 27 سالہ خرم شہزاد بٹ کے اہل خانہ جہلم کے علاقے مجاہد آباد کے رہائشی تھے تاہم وہ 9 سال قبل اس گھر کو فروخت کرچکے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف جہاں پولیس کی جانب سے کسی بھی سرچ آپریشن کی تردید کی گئی، وہیں ایک پاکستانی عہدیدار نے برطانوی اخبار 'دی ٹیلی گراف' کو بتایا کہ مجاہدآباد اور جہلم میں موجود حملہ آور کے آبائی گھروں کی تلاش جاری ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ہمارے برطانوی ہم منصبوں کے مطابق وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خرم شہزاد بٹ کو پاکستان میں انتہاپسندی کی جانب مائل کیا گیا، جبکہ ہمارا بھی یہ خیال ہے کہ اس کی تربیت شام میں کی گئی'۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی پولیس کی جانب سے لندن حملہ آوروں کے دو نام جاری

برطانوی اخبار کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم خرم شہزاد سے رابطے میں موجود اس کے رشتے داروں کی تلاش میں ہیں جبکہ اہل خانہ کی جانب سے کی جانے والی فون کالز کو بھی ٹریس کیا جارہا ہے'۔

یاد رہے کہ ہفتہ (3 جون) کی شب خرم شہزاد بٹ اور دیگر 2 حملہ آوروں نے لندن برج پر پیدل چلنے ولے مسافروں پر تیز رفتار وین چڑھادی تھی، بعد ازاں ان حملہ آوروں نے برج کے نزدیک واقع برو مارکیٹ میں چند افراد پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 7 افراد ہلاک اور 48 زخمی ہوگئے تھے۔

جہلم کے علاقے مجاہد آباد کے رہائشیوں کے مطابق خرم شہزاد بٹ کی عمر تین سال تھی، جب ان کا گھرانہ برطانیہ منتقل ہوگیا تھا، ان کے والد سیف اللہ بٹ نے چند سال پہلے ہی وفات پائی جبکہ 1992 میں برطانیہ میں پناہ لینے سے قبل وہ جہلم میں فرنیچر کا کاروبار کرتے تھے۔

دوسری جانب خرم شہزاد بٹ کے ماموں جہلم میں اہم کاروباری اور سیاسی شخصیات کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن لندن برج میں ہونے والے حملے میں بھانجے کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے حوالے سے ان کا مؤقف حاصل نہیں کیا جاسکا۔

مزید پڑھیں: لندن برج واقعے کے تیسرے حملہ آور کا نام بھی جاری

مشتبہ حملہ آور کے ایک ماموں شاہد رسول ڈار پاکستان مسلم لیگ (ن) جہلم چیپٹر میں طوریل عرصے سے عہدے پر فائز ہیں۔

خرم شہزاد کے دوسرے ماموں ناصر ڈار مرکزِ انجمن تاجران جہلم کے صدر ہونے کے ساتھ جی ٹی روڈ پر واقع ریسٹورنٹ کے مالک ہیں۔

ان افراد کی رائے حاصل کرنے کے لیے صحافیوں کی بڑی تعداد ان کے دفاتر اور گھروں کو پہنچی تاہم وہ بند ملے۔

خرم شہزاد بٹ کے آبائی گھر کی تلاش کے ساتھ ساتھ خفیہ اہلکاروں نے ناصر ڈار کے جی ٹی روڈ پر واقع ریسٹورنٹ کی بھی چھان بین کی تاہم وہاں سے کوئی مشتبہ چیز برآمد نہ ہوئی۔

جہلم میں مقیم خرم شہزاد بٹ کے 18 سالہ کزن بلال ڈار نے امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں بتایا کہ اس حملے نے ان کے خاندان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

بلال ڈار کا کہنا تھا کہ 'خرم شہزاد کی جانب سے کیے گئے حملے سے ہماری فیملی کو افسوس ہوا اور خاندان کی عزت تباہ ہوکر رہ گئی'۔

بلال ڈار نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ خفیہ اہلکاروں کی جانب سے رشتے داروں سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے۔

حملہ آور کے آبائی علاقے میں رہنے والے پڑوسی زاہد نواز نے اخبار 'دی ٹیلی گراف' کو بتایا کہ 'پولیس نے ہم سے پوچھا کہ سیف اورخرم بٹ کے گھر کہاں ہیں، اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ برطانیہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں ملوث مشتبہ شخص کا تعلق اس علاقے سے ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ہمارے لیے شرمندگی کی بات ہے، ہم نہیں چاہتے کہ یہ علاقہ اس طرح سے جانا جائے'۔


یہ خبر 7 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں