لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

تقریباً دو ماہ سے توانائی کے شعبے میں مختلف سطحوں پر یہ بات گردش کر رہی تھی کہ حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں توسیع کے جن بڑے بڑے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے، اس میں بہت زیادہ پیداواری صلاحیت لانے کی ذمہ داری دے دینے کا رسک شامل ہے، جس سے ہمیں ان بجلی گھروں کے مہنگے بل ادا کرنے کا بوجھ اٹھانا پڑے گا جو سال کا زیادہ تر حصہ بجلی پیدا نہیں کریں گے۔

کچھ عرصہ قبل تک یہ بات، مسلسل صرف سننے کو مل رہی تھی اور اس کی صداقت کے آثار بھی دیکھنے کو مل رہے تھے۔

منگل کو اس بات کی تصدیق بھی ہو گئی۔ وزیرِ اعظم نے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے توانائی کے مزید دو منصوبوں کی منظوری دے دی، جنہیں گزشتہ برس درآمد شدہ ایندھن پر چلنے والے منصوبوں کو محدود کرنے کے سلسلے میں ترک کر دیا گیا تھا۔ دو منصوبوں میں رحیم یار خان اور مظفر گڑھ میں قائم کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس شامل ہیں جن سے اب درآمد شدہ ایل این جی سے بجلی پیدا کی جائے گی۔ دونوں منصوبے حکومتِ پنجاب نے شروع کیے تھے۔

اگر ان پلانٹس پر کام شروع کرنا بھی ہے تو حکومت کو سب سے پہلے درآمد شدہ ایندھن سے بجلی پیدا کرنے پر عائد پابندی ختم کرنی ہوگی۔ اور اس پابندی کے خاتمے کو درست ثابت کرنے کے لیے اسے مستقبل میں توانائی کی طلب کے اندازوں پر نظرِ ثانی بھی کرنا پڑے گا، کیوں کہ موجودہ اندازوں، جن کی بنیاد پر ہی توانائی کے شعبے میں توسیع کا پورا منصوبہ مرتب کیا گیا ہے، کا جائزہ لیں تو پاکستان کے پاس چند سالوں کے اندر ہی ضرورت سے زیادہ توانائی کی پیداواری صلاحیت ہوگی۔

توانائی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے اصل پلان کے تحت جون 2018 تک پیداواری صلاحیت بڑھ کر 31 ہزار میگا واٹ ہو جائے گی، جبکہ اندازے کے مطابق توانائی کی طلب 27 ہزار میگا واٹ سے نیچے رہے گی۔ مطلب یہ ہوا کہ ملک کے پاس کافی زیادہ اضافی پیداواری صلاحیت ہوگی۔ اگلے چار سالوں میں مزید 20 ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہو جائے گا، یوں 2022 تک توانائی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 53 ہزار میگا واٹ ہوجائے گی۔

جیسے ہی صلاحیت میں اضافہ ہوگا، تو متروکہ ٹیکنالوجی اور کم صلاحیت کے حامل موجودہ پلانٹس بے کار رہیں گے۔ مگر ان کے کیپیسیٹی چارجز (صلاحیت برقرار رکھنے کے اخراجات) پھر بھی واجب الادا ہوں گے۔ اسی منصوبے کے تحت یہ بھی اندازہ لگایا گیا تھا کہ ان بے کار منصوبوں کی ادائیگیوں میں بے تحاشا اضافہ ہو جائے گا اور یہ 2021 تک 48 ارب روپے تک پہنچ جائیں گی۔

یہ اخراجات پہلے سے ہی برداشت سے باہر تصور کیے جا رہے تھے، جبکہ کیپیسٹی چارجز میں مزید اضافے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس شعبے کی مالیات پر سبسڈی کے بعد سب سے بڑا بوجھ بنیں گے۔

اسی لیے 3 مئی 2016 کو پرائیوٹ پاور انفرااسٹرکچر بورڈ کی 105 ویں بورڈ میٹنگ میں ایک فیصلہ کیا گیا تھا کہ 'درآمد شدہ ایندھن پر چلنے والی کسی بھی منصوبے کو زیر غور نہیں لایا جائے گا اور نہ ہی اس پر کام کیا جائے گا'، سوائے ان منصوبوں کے کہ جو پہلے سے پائپ لائن میں تھے۔

اس فیصلے کے ساتھ، ملک میں سرمایہ کاری کے سب سے بڑے، سب سے نفع بخش، اور سب سے محفوظ شعبے — یعنی بجلی کی پیداوار — کے دروازے بند ہو گئے۔ چند ایک جو اس کا فائدہ حاصل کرنے سے رہ گئے تھے، انہوں نے پوری طاقت سے اس بند دروازے سے اپنا راستہ بنانے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔

اور انہوں نے وہ کام کچھ اس طرح کر کے دکھایا۔ پہلے تو انہوں نے اپریل میں گرمی کی شدید لہر میں کی جانے والی لوڈ شیڈنگ کو بنیاد بناتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ حکومتی اندازے غلط تھے۔ پھر انہوں نے توانائی کی طلب کے اپنے اندازے پیش کیے، جن کے اعداد و شمار کے لیے انہوں نے "اقتصادی ترقی کے باعث برقی آلات کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے بجلی کی طلب میں اضافے" جیسی باتوں کو بنیاد بنایا۔

آپ ذرا دیکھیں کہ یہ دعوے کس طرح وزیر اعظم پر ایک ہی وقت میں منفی اور مثبت انداز میں جا کر لگے ہوں گے۔ لوگ طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تکلیف سہہ رہے ہیں، لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے اپنے وعدے پورے نہ کر پانے کی وجہ سے میڈیا میں حکومت کا تماشا لگا ہوا ہے، پانی و بجلی کی وزارت دفاعی انداز میں اپنی خراب صورتحال کو سمجھانے میں کوشاں ہے۔ یہی موقع ہے وار کرنے کا!

لہٰذا انہوں نے اپنی اس بات کے ساتھ وار کیا کہ وزارت نے تو جہاں پناہ وزیر اعظم کو "گلابی" اندازوں کے ساتھ گمراہ کیا ہے! درحقیقت بجلی کی کھپت اُن اندازوں کے مقابلے تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے کیوں کہ جہاں پناہ کی پالیسیوں نے ترقی کی راہیں ہموار کر دی ہیں اور لوگ برقی آلات خریدنے کی استطاعت رکھنے لگے ہیں۔ چنانچہ ہمیں متوقع ترقی میں زبردست اضافے اور بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے توانائی کی طلب کے اندازوں پر دوبارہ نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، اور اسی لیے مستقبل میں توانائی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے منصوبوں کے فوری طور پر معاہدے کیے جائیں تا کہ مستقبل میں ایک بار ان منصوبوں کے فعال ہو جانے پر مستقبل کی توانائی کی طلب کو پورا کیا جاسکے۔

یہ بات کچھ عرصے سے میڈیا میں گردش کر رہی تھی۔ آخری بار یہ بات گزشتہ ہفتے 29 مئی اور 30 مئی کو ہونے والے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاسوں میں بھی سننے کو مل گئی۔ دونوں اجلاسوں میں ایک پریشان وزیر اعظم، ملک میں بڑھتے بجلی بحران کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے اس بے چینی کا شکار تھے کہ وہ مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کی حالت میں بھی نظر نہیں آئے۔ جب انہوں نے گردشی قرضے کا پوچھا تو پانی و بجلی کی وزارت نے وزارت خزانہ سے مختلف شرح بتائی۔

جب انہوں نے طلب اور کھپت کے درمیان فرق دریافت کیا تو ان کی وزارت اور ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے بتائی گئی شرح میں تضاد تھا۔ جب انہوں نے بے کار پڑے بجلی گھروں کا پوچھا تو جواب میں انہیں ان کے نزدیک پرانی ٹیکنالوجی اور زیر سماعت مقدمات کے تکنیکی اور پیچیدہ جوابات دیے گئے۔ پریشان حال اور رمضان کے آغاز سے ہی دباؤ کے شکار وزیر اعظم صاحب، جنہوں نے اسی مہینے کے لیے بار ہا اس وعدے کو دہرایا تھا کہ کم از کم سحری اور افطار کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، مسئلے کے فوری حل کے لیے ادھر اُدھر دیکھنے لگے۔

وزارت پانی و بجلی اپنے انجن پوری رفتار کے ساتھ چلاتی ہے اور چند دنوں میں توانائی کی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر وزیر پانی و بجلی اور مریم نواز توانائی کی بڑھتی پیداوار کے بلند و بالا ہندسوں کی اسکرین شاٹس ٹوئیٹ کرتے ہیں، جس میں ریکارڈ 19 ہزار میگا واٹ سے بھی زائد پیداوار دیکھنے کو ملتی ہے۔ پھر ساتھ ہی مریم کی جانب سے یہ سوال بھی درج تھا کہ، "کیا آپ کے پاس لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے؟"

مگر اتنے اقدامات کے باوجود بھی کچھ خاص فائدہ حاصل نہ ہوا۔ منگل کو کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اگلے اجلاس میں وزیر اعظم حکومت پنجاب کی گمراہ کن دلیل کے چکر میں آ جاتے ہیں اور رحیم یار خان میں واقع درآمد شدہ ایندھن پر چلنے والے ایک نئے اور بڑے توانائی منصوبے کی منظوری دے بیٹھتے ہیں۔

یہ دیکھ کر مجھے 1990 کی دہائی کا وہ زمانہ یاد آتا ہے کہ جب 1994 کی آئی پی پی پالیسی کے تحت حکومت کو 2 ہزار میگا واٹ سے زائد توانائی منصوبے کا معاہدہ نہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ بقیہ توانائی ضرورت کو آئی پی پیز کے تحت توانائی شعبے میں ہونے والی اصلاحات سے برآمد ہونے والے نتائج سے پورا کرنے کی تجویز دی گئی۔ اس کے بجائے حکومت نے 4500 میگا واٹ والے منصوبوں کے معاہدے کیے، اور اصلاحات پر دھیان ہی نہیں دیا۔

ہم سب کو یاد ہے کہ اس کا انجام کیا ہوا تھا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 جون 2017 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Ak Jun 11, 2017 03:03pm
Difficult matter disclosed in simple words. . .
شیو شنکر مہاجن Jun 11, 2017 08:46pm
اٹھارویں ترمیم کے تحت این ٹی ڈی سی اور واپڈا جیسے اداروں کا کام کیا رہ جاتا ہے؟ یہی کے صوبوں کی بنائی ہوئی بجلی پہلے مرکزی سطح پر جمع کی جائے اور پھر انہی صوبوں کو واپس کی جائے جنہوں نے یہ بجلی پیدا کی! یہ طریقہ کار بالکل غلط ہے۔ ملک کے ہر صوبے کو چاہئے کہ اپنے اپنے پاور پلانٹس لگائیں جیسا کہ دنیا کے کئی ملکوں میں ہیں اور صرف اپنے ہی شہروں کی ضرورتوں کو پورا کریں اور اگر کسی صوبے کی بجلی سر پلس میں چلی جائے تو پھر یا تو پڑوسی صوبوں کو بیچ دیں یا پھر پڑوسی ملکوں کو ۔۔۔ لیکن ایسا نظام جس سے پہلے بجلی پیدا کرکے وفاق کو دی جائے اور پھر وفاق سب کو مجموعی پیداواری صلاحیت کے مطابق تقسیم کرے، بے وقوفی ہے۔
KHAN Jun 11, 2017 09:26pm
یہ منصوبے بنانے والے اپنا کمیشن لے کر ملک سے پُر ہوجائینگے مگر ان کا بل ادا کرنے لیے ہم عوام موجود ہیں، 48 ارب ہو یا 100 ارب سبسڈی دینے کے لیے ٹیکس دینے والے موجود ہیں، جو اپنے ٹیکس کے متعلق سوال بھی نہیں کرتے.... خیرخواہ