پاپوا نیو گنی میں قائم آسٹریلوی قید خانے میں موجود پناہ گزین قیدی ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے ’بے حرمتی اور ظالمانہ‘ رویے پر ایک عدالتی فیصلے میں کروڑوں ڈالر کا مقدمہ جیت گئے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ آسٹریلوی تاریخ میں انسانی حقوق کے حوالے سے یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپنی سرزمین سے دور پاپوا نیو گنی کے جزیرہ مینس میں موجود ایک قید خانے میں قیدیوں کے ساتھ بد سلوکی، ان کو نقصان پہنچانے اور صحت کے مسائل کی اطلاعات موصول ہوتی رہی تھیں۔

اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر احتجاج کرتے ہوئے قیدیوں نے اپنے ہونٹ سی لیے تھے تاکہ ان کی حالت زار کے بارے میں آواز بلند کی جا سکے۔

مزید پڑھیں: آسٹریلیا: پاکستانی پناہ گزینوں کو واپس جانے پر 3300 ڈالرز کی آفر

فیصلے کے مطابق جزیرہ مینس میں قید 1 ہزار 9 سو 5 قیدیوں کے درمیان 5 کروڑ 30 لاکھ امریکی ڈالر کی رقم بانٹی جائے گی تاہم اس فیصلے سے حکومت اور سیکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں ٹرانسفیلڈ اور جی فور ایس پر سے عوامی ٹرائل کا خطر ٹال دیا گیا ہے۔

ایک اعلیٰ فیصلے کی وجہ سے درخواست گزاروں کو قید میں درد ناک رویے سے چھٹکارا حاصل ہوا ہے۔

اس فیصلے کو ماہرین نے ’جھوٹی قید‘ کی ادائیگی کہا ہے کیونکہ گذشتہ برس پاپوا نیو گنی کے سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ پناہ گزینوں کو جزیرہ مینس پر رکھنا غیر قانونی ہے۔

ایک قانونی فرم سلیٹر اینڈ گورڈن کا ماننا ہے کہ یہ آسٹریلوی انسانی حقوق کی تاریخ کی سب سے بڑی پیش رفت ہے جس میں مدعی بھی 2 کروڑ آسٹریلوی ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں۔

اس فرم کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ جزیرے مینس میں قید افراد جنہوں نے قید میں انتہائی سختیاں برداشت کیں اب مزید خاموش نہیں رہیں گے۔

ایک اور خبر پڑھیں: آسٹریلیا کے جان لیوا گھوڑے

ان کا کہنا تھا کہ پیسے سے ان افراد کے خلاف ہونے والے توہین آمیز سلوک کا ازالہ نہیں ہو سکتا لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ اس فیصلے کے بعد سے وہ لوگ اپنی زندگیوں کی اس تلخ حقیقت کے باب کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیں گے۔

پاپوا نیو گنی میں موجود یہ آسٹریوی قید خانہ 2012 میں قائم کیا گیا جہاں سمندری راستے سے داخل ہونے والے افراد کے سخت امیگریشن قوانین کے تحت کارروائی کے لیے یہاں بھیج دیا جاتا ہے۔

اور ایسے افراد کو پناہ گزین ثابت ہونے کے با وجود بھی آسٹریلیا میں داخل ہونے اور وہاں آباد کاری سے روک دیا جاتا ہے۔

جزیرے مینس اور بحر الکاہل کے جزیرے ناؤرو میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک اور لا پرواہی کی وجہ سے قیدی صحت کے سنگین مسائل سے دوچار ہونے کی رپورٹس پر پناہ گزینوں کے وکلا اور ڈاکٹرز نے شدید تنقید کی تھی۔

ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے اس کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے آسٹریلوی حکومت کے بدسلوکی کے نظام پر ایک ضرب ہے۔

ایمنسٹی انٹر نیشنل کے پیسیفک ریسرچر کیٹ شوٹزے کا کہنا ہے کہ یہ ان پناہ گزینوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک اہم موڑ ہے جس کی بنیاد بد سلوکی کے بجائے ان کی حفاظت ہوگی۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں