لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

بیٹے سے سخت تحقیقات کے بعد اب وزیر اعظم خود اس جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے جو شریف خاندان کے بیرون ملک اثاثہ جات کی منی ٹریل کی تحقیقات میں مصروف ہے۔

اس ملک میں یہ ایک غیر معمولی موقع ہوگا کہ جب ملک کا سب سے بڑا رہنما تحقیقات کے لیے خود کو پیش کرے گا، البتہ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ ان غیر معمولی تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔

جو باتیں شکوک شبہات کو پختہ کرتی ہیں، ان میں چند سرکاری محکموں کی جانب سے دستاویزات سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات اور تحقیقات کو متنازع بنانے کی ایک منظم مہم شامل ہیں۔ حکمران جماعت کے ممبران کے اشتعال انگیز بیانات، تحقیقاتی کمیٹی کے ممبران اور تحقیقات کے نگران جج صاحبان کو ڈرانے دھمکانے کی حکمت عملی کا حصہ لگتے ہیں۔

جہاں سینیٹر نہال ہاشمی کی منی ٹریل کے تحقیق کاروں کو وارننگ اس قدر اشتعال انگیز اور واضح تھی کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وہاں عدلیہ کو ہدف بنانے والی مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کی مسلسل دھواں دھار تقاریر کسی خطرے سے کم نہیں لگتیں۔

ایسے تبصروں پر جج صاحبان کے شدید غصے کا اندازہ جسٹس عظمت سعید کے اس ریمارکس سے لگایا جاسکتا ہے: "ایسا تو دہشتگرد اور مافیا کرتے ہیں۔" انہوں نے حکومت کو ’سیسیلیئن مافیا’ سے تشبیہہ بھی دی۔ کسی قسم کے سیاسی رد عمل سے بچنے کے لیے، پارٹی نے سینیٹر کو پارٹی سے نکال دیا، لیکن عدلیہ کو ہدف بنانے والے دیگر ممبران کو روکنے کی ابھی کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔

پڑھیے: 'حکمران جماعت 1997 جیسا منصوبہ بنا رہی ہے'

ہم بھلے ہی اس نہج پر نہ پہنچے ہوں، مگر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا اشتعال انگیز لہجہ ہمیں 1997 میں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت کے دوران سپریم کورٹ پر دھاوا بول دینے والا واقعہ یاد دلاتا ہے۔ دلچسپ طور پر، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب سپریم کورٹ نے اسی وزیر اعظم کو توہین عدالت کے ایک مقدمے میں پیشی کا حکم دیا تھا۔ اس معاملے نے اس وقت کے چیف جسٹس اور نئی منتخب وفاقی حکومت کے درمیان محاذ کھول دیا۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں کورٹ نمبر ایک کے باہر مرحوم اردشیر کاوسجی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا تب ہی کابینہ کے چند وزراء کی سربراہی میں ایک مشتعل ہجوم سیکیورٹی حصار توڑتے ہوئے ہال میں داخل ہوا۔ سینئر جج صاحبان خود کو بچانے کے لیے ادھر سے ادھر بھاگنے لگے، وہ ہولناک منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔

مشن پورا ہوا، رہنماؤں نے عمارت سے باہر نکلنے سے قبل فاتحانہ تقریر کی۔ اپنے رہنما کی مبینہ ذلت پر پارٹی وفاداروں کا شیدید غصہ یقینی طور پر خود بخود نہیں پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ اعلٰی قیادت کے اکسانے پر پیدا کیا گیا تھا۔ بلاشبہ اس کا مقصد عدلیہ کی آزادی ختم کرنا تھا۔

بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوئی؛ اس کے بعد شریف حکومت نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو منقسم کرتے ہوئے ایک سرگرم عمل چیف جسٹس کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ایک الگ طویل اور غلیظ کہانی ہے۔ سب سے زیادہ بدحواس کر دینے والی بات تو عدلیہ کے چند سینئر ممبران کی ہے جنہوں نے اعلٰی عدالت کے تقدس کو پامال کرنے والے اس حیران کن واقعے کو دفن کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

عدالت پر دھاوا بولنے کا یہ واقعہ نواز شریف کی دوسری حکومت کے غرور کا نتیجہ تھا جو بھاری اکثیرت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ صوبائی سطح پر پارٹی کنٹرول نے پارٹی کی سیاسی گرفت مزید مستحکم کر دی تھی۔ ایک کمزور اپوزیشن کے لیے اس دیو قامت طاقت سے مزاحمت کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ سپریم کورٹ پر حملے نے انتظامیہ کی طاقت پر عدلیہ کے تمام ضابطوں کو ختم کر دیا یوں نواز شریف، بااختیار ’امیر المومنین’ بننے کے اپنے مقصد کے بہت قریب پہنچ گئے۔ تاہم 1999 کی فوجی بغاوت نے ان کے اس خواب کو حقیقت ہونے نہیں دیا۔

مزید پڑھیے: شریف خاندان کی تحقیقات کرنے والےجے آئی ٹی ارکان کون ہیں؟

بلاشبہ، 1997 کا قصہ دہرانا نواز شریف کی تیسری حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا، لیکن حکمران جماعت کے ممبران کی جانب سے جاری ڈرانے اور دھمکانے کی اس مہم کو 1997 میں عدالت پر دھاوا بولنے کے واقعے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مقصد اب بھی وہی ہے: عدالت کو ملک کے سب سے طاقتور حکمران خاندان کے خلاف جاری قانونی کارروائی کو روکنا۔ شریف حکومت کی 'سیسیلیئن مافیا' سے تعبیر کی بات بھلے ہی حد سے زیادہ تنقیدی محسوس ہوئی ہو مگر حکومت کے ہنگامہ خیز طریقے بہت شرم ناک ہیں۔

بلاشبہ، جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے چند اعتراض، خاص طور پر عسکری انٹیلیجنس اداروں کی شمولیت، جائز مانے جاسکتے ہیں مگر اسے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایک بہانے کے طور پر ہر گز استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

چند اپوزیشن پارٹیاں، خاص طور پر پی ٹی آئی، بھی جے آئی ٹی کو متنازع بنانے اور سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے میں اپنا حصہ ڈال چکی ہیں۔ عدالت کے باہر سرکس لگا کر حکمران اور اپوزیشن ممبران کا ایک دوسرے کو گالیاں دینے کا عمل انتہائی شرم ناک ہے۔ اس جاری سیاسی محاذ آرائی اور چند حکومتی محکموں کے مبینہ عدم تعاون نے تحقیقات کاروں کے کام انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔

بلاشبہ، پاناما گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے اس انتہائی غیر معمولی تحقیقات کو ایسی تمام رکاوٹوں سے متاثر ہونے سے بچانے کا ذمہ اعلٰی عدالت کا ہے۔ یقیناً، ہر کسی کو مطمئن کرنا آسان نہیں۔ لیکن اس ملک میں ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات یقیناً احتساب کے عمل کو تقویت بخشیں گی۔

یہ بات شاید سچ ہو کہ پاناما پیپرز اسکینڈل نے معاملات کو سب کے سامنے کھول کر پیش کر دیا ہے، لیکن شریف خاندان پر لندن میں مہنگی جائیدادوں کی خریداری کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ پہلی بار ایسا معاملہ قریب دو دہائیوں پہلے ایک ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا جس میں مے فیئر اپارٹمنٹس کی ملکیت کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔

پرویز مشرف کی فوجی حکومت میں قید کے دوران اسحاق ڈار نے مبینہ طور پر پیسوں کی منتقلی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی تھیں۔ اگرچہ وزیر خزانہ کے دعویٰ کے مطابق وہ بیان زبردستی دلوایا گیا تھا، مگر اب بھی معاملے کی تہہ تک تحقیقات کی جانے ضرورت ہے۔ سچ سامنے لانے کا واحد طریقہ اس اسکینڈل کی غیر جانبدار تحقیقات ہے، جس کے باعث پورے سیاسی نظام پر عوام کا اعتماد داؤ پر لگا ہوا ہے۔

جانیے: پاناما جے آئی ٹی وزیراعظم سے کیا سوالات کرسکتی ہے؟

بلاشبہ جے آئی ٹی ایک بہترین انتخاب نہیں ہے، مگر اقتدار میں بیٹھے افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں ہماری تحقیقاتی ایجنسیوں کی نااہلی کے پیش نظر اعلٰی عدالت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں بچا تھا۔

وزیر اعظم کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے ملک میں جمہوری عمل کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوگا۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ جمعرات کو جب وزیر اعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے تب حکمران جماعت کس طرح کا رد عمل پیش کرے گی۔

مسلم لیگ ن کے حد سے زیادہ جوشیلے رہنماؤں اور حامیوں کو ماضی میں سپریم کورٹ پر دھاوا بولنے کے واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اس قسم کے کسی ہتھکنڈے کو استعمال کرنے سے خود کو باز رکھنا ہوگا۔

یہ مضمون 14 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

hasrat Jun 15, 2017 12:32pm
https://www.youtube.com/watch?v=O6xNpEaw3p0