واشنگٹن: امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے اعلان کیا ہے کہ امریکا پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بین الایجنسی جائزہ لے گا۔

یہ ریمارکس رواں ہفتے امریکی ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کی بجٹ سنوائی کے دوران سامنے آئے جس سے ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان کے حوالے سے خیالات منظر عام پر آگئے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ 6 ماہ قبل اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک پاک-امریکا تعلقات کے حوالے سے خاموش رہی ہے۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کے اعلان اور امریکی قانون سازوں کے تبصروں کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی امداد پر نظر ثانی کرنے سے کم ہوتی امریکی امداد مزید کم ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: 'ٹرمپ کو پاک-امریکا تعلقات میں بہتری کی امید'

کانگریس کے دو ریپبلکن نمائندگان ڈانا روہرابچر اور ٹیڈ پو نے ذیلی کمیٹی برائے دہشت گردی، عدم پھیلاؤ اور تجارت کی سماعت کے دوران بھی اسی طرح کے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ امریکا پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنا بند کرے اور پاکستان کو ایک ’دہشت گردی کا کفیل‘ ملک قرار دے۔

ڈانا روہرابچر نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی قید اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کے افغان طالبان سے مبینہ تعلقات پر سیکریٹری اسٹیٹ کے سامنے اپنا من پسند سوال اٹھایا کہ ’ہم پاکستان کو اب تک امداد کیوں فراہم کر رہے ہیں؟‘

دونوں ریپبلکن نمائندے اکثر وبیشتر ان سماعتوں کے دوران پاکستان کو بدنام کرتے رہے ہیں، تاہم امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کی جانب سے سامنے آنے والا رد عمل غیر متوقع تھا کیونکہ وہ اکثر اس طرح کے سوالات کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کے حوالے سے پالیسی کا بین الایجنسی جائزہ لے رہے ہیں اور یہ چند تحفظات میں سے ایک ہے جبکہ امریکی صدر نے پاکستان کے لیے امریکی فنڈنگ اور امداد کی سطح کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن اس معاملے پر نظر ثانی کے بعد ہی حتمی فیصلہ کیا جائے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاک امریکا تعلقات چیلنجز سے بھرپور

سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’آپ لوگ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کو بہتر جانتے ہیں اور سراہتے ہیں، پاکستان کے ساتھ مل کر امریکا نے افغانستان میں بائیدار امن کی بحالی جیسے مسائل سمیت حل کرنے کے ساتھ انڈو پیسفک خطے میں استحکام بھی حاصل کیا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات بہت پیچیدہ ہیں لیکن آپ کے خدشات بھی با وجہ ہیں‘۔

ریپبلکن رکن ڈانا روہرابچر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس معاملے کو حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ معاملات چلا رہے ہوں جو آپ کے ساتھ دوغلی پالیسی کے تحت چلتے ہوں تو ان کے خلاف ایسا فیصلہ کرنا کڑوا گھونٹ پینے کے مترادف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'میں جن بھی لوگوں سے آج تک ملا ہوں انہوں نے پاکستان کو اس خطے میں دہشت گرد کفیل ملک قرار دیا ہے'۔

ایک اور خبر پڑھیں: 'امریکا سے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں'

ڈانا روہرابچر نے امریکا کو افغانستان میں درپیش مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہراتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم افغانستان میں کامیاب نہیں ہوتے تو اس کی وجہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہوگی‘۔

سیکریٹری اسٹیٹ نے کانگریس کو بتایا کہ امریکا کی افغان پالیسی پر نظر ثانی کی جارہی ہے، ساتھ ہی انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان کے تناظر میں ایک دوسرے کے بغیر کام نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب جن احکامات کی پیروی کی جارہی ہے وہ ٹرمپ انتظامیہ کی اولین ترجیحات ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں: ’پاک امریکا افواج کا تعلق دوبارہ استوار کرنے کی ضرورت‘

ٹیڈ پو نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ کھیل رہا ہے، امریکا پاکستان کو پیسہ دیتا ہے اور وہ پیسہ آخر میں افغانستان میں موجود طالبان تک پہنچتا ہے جو امریکیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اب امریکا کا ایک بھی پیسہ نہیں ملنا چاہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’پاکستان کو دہشت گردی کا کفیل ملک قرار دے دینا چاہیے اور اسے اہم غیر نیٹو اتحادی کے درجہ سے بھی ہٹا دینا چاہیے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو فوجی امداد کے علاوہ 50 کروڑ امریکی ڈالر بھی سالانہ حاصل ہوتے ہیں۔

ٹیڈ پو کا کہنا تھا کہ انھوں نے سیکریٹری کا بیان سنا ہے، لیکن وہ جاننا چاہتے ہیں کہ 'انہوں نے جس کا تذکرہ کیا ہے، کیا اس میں سے کوئی آپشن زیر غور آسکتا ہے؟'


یہ خبر 17 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں