دوحہ: بحرین نے داعش کے خلاف جنگ کے لیے قائم اتحاد میں شامل قطری فوج کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فوجی اہلکار امریکی نیول فورسز سینٹرل کمانڈ (این اے وی سی اے این ٹی) کا حصہ تھے، جس کا ہیڈکوارٹر بحرین میں موجود ہے، قطری فوج کے اہلکاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے 48 گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ذرائع نے بتایا کہ ’بحرین نے بیس پر موجود امریکی جنرل کو بتایا کہ قطری سپاہیوں کو لازمی جانا ہوگا، وہ اب بھی بیس میں موجود ہیں تاہم آئندہ دو روز میں ملک چھوڑ دیں گے‘۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ سمی دیگر اسلامی ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ یمن جنگ میں مصروف سعودی اتحاد میں شامل قطر کے فوجی دستوں کو واپس بھیج دیا جائے گا۔

اس موقع پر قطر پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایران سمیت دیگر شدت پسند گروپوں کی حمایت کررہا ہے، تاہم قطر نے ان الزامات کی تردید کی۔

بحرین اور قطر کے درمیان حالات اس وقت مزید کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے جب بحرین نے قطر پر اس کے داخلی معاملات میں براہ راست مداخلت کا الزام لگایا تھا، لیکن قطر نے ان الزامات کی تردید کی۔

واضح رہے کہ ذرائع نے بحرین کے بیس پر موجود قطر کے فوجی اہلکاروں کی تعداد کے بارے میں آگاہ نہیں کیا، تاہم ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔

ایک عہدیدار کے مطابق قطر نے این وے وی سی ای ٹی میں 2014 میں اپنے فوجی تعینات کیے تھے، یہ گروپ امریکی کمانڈ کا حصہ ہے جو وسطی ایشیا اور ایشیا میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے۔

اس گروپ کے آپریشنز عراق، شام اور افغانستان میں داعش کے خلاف جاری ہیں۔

خیال رہے کہ امریکا حالیہ عرب کشیدگی کو کم کرنے کے لے سفارتی سطح پر کوششیں کررہا ہے تاہم اس کی پالیسی ناقابل اعتبار ثابت ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کے درمیان شروع ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مختلف ریاستوں سے رابطہ کیا تاہم اس سے قبل انھوں ںے قطر پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا تھا۔

دوسری جانب امریکا نے حال ہی میں قطر کی ایئرفورس کو متعدد ایف-15 طیاروں کی فراہمی کے لیے اربوں ڈالر کا معاہدہ بھی کیا ہے۔


یہ رپورٹ 19 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں