سعودی خواتین عبایہ کوکیوں ترجیح دیتی ہیں؟

20 جون 2017
عبایہ کو خواتین پر مسلط کردہ لباس سمجھا جاتا ہے—فائیل فوٹو: اے ایف پی
عبایہ کو خواتین پر مسلط کردہ لباس سمجھا جاتا ہے—فائیل فوٹو: اے ایف پی

مسلمان خواتین کی جانب سے مکمل لباس پہننا، نقاب کرنا یا پھرعبایہ کا انتخاب کرنا نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی روایات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

مگر مسلمان خواتین کی جانب سے ایسے لباس کو ترجیح دینے کے حوالے سے مغربی و یورپی ممالک کی جانب سے ہمیشہ مسلمان معاشروں، حکومتوں اور خواتین کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

حتیٰ کہ جدید دور اور فیشن کے مطابق یورپ اور مغربی ممالک کی کمپنیاں بھی عبایہ اور نقاب تیار کرنے لگی ہیں۔

مسلمان خواتین اور خصوصی طور پر سعودی عرب میں عبایہ اور برقعے کے زیادہ استعمال پر دنیا میں ہمیشہ بحث ہوتی رہی ہے، دنیا کے کئی ممالک میں سعودی خواتین کے لباس کو ان کے قید سے تشبیح دی جاتی ہے۔

آزاد معاشروں، قدرے سیکولر، ایڈوانس اور روشن خیال معاشروں کے لوگ عبایہ، برقعے اور نقاب کو کبھی کبھی خواتین کے حقوق کے خلاف بھی قرار دیتی ہیں، اور خیال جاتا ہے کہ ایسے لباس خواتین پر مسلط کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی خواتین کو پہلے اس کی اجازت نہ تھی

لیکن پھر سوال یہ ہے کہ اگر عبایہ اور نقاب اتنا ہی مشکل ہے تو سعودی خواتین اس کا انتخاب کیوں کرتی ہیں؟

سعودی خواتین عبایہ کو قومی لباس سمجھتی ہیں—فائیل فوٹو: اے ایف پی
سعودی خواتین عبایہ کو قومی لباس سمجھتی ہیں—فائیل فوٹو: اے ایف پی

یہ سوال دنیا کے کروڑوں افراد کے ذہن میں موجود ہے، جس کا ہرکوئی پہلا جواب یہی دیتا ہے کہ سعودی خواتین ایسا وہاں کی قدامت پسند حکومت کی وجہ سے ہی کرتی ہیں۔

مگر سعودی عرب کی فیشن انڈسٹری کی خواتین سلیبرٹیز اس کا جواب مختلف دیتی ہیں۔

حال ہی میں مشرق وسطیٰ سے متعلق واشنگٹن ڈی سی میں واقع ایک کلچرل ادارے اور سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کے سینٹر فار ویمن کی جانب سے امریکی شہر لاس اینجلس میں’عبایہ کے ذریعے سعودی خواتین میں فیشن کے فروغ‘ کے عنوان سے پروگرام منعقد کیا گیا۔

سعودی خواتین عبایہ پہن کر فخر محسوس کرتی ہیں—فائیل فوٹو: اے ایف پی
سعودی خواتین عبایہ پہن کر فخر محسوس کرتی ہیں—فائیل فوٹو: اے ایف پی

اس پروگرام میں سعودی عرب کی فیشن انڈسٹری کی معروف خاتون مریم موصالی نے سعودی خواتین کے فیشن اور عبایہ کو ترجیح دینے کے حوالے سے گفتگو کی۔

مریم موصالی نے پروگرام کے دوران فیشن اور انٹٹرٹینمینٹ نیوز ویب سائٹ ہولی وڈ رپورٹس سے بھی بات کی، اور اس بات کی ویڈیو انہوں نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کی۔

مزید پڑھیں: سعودی خواتین مرد کی اجازت سے آزاد

مریم موصالی نیچی عربیا نامی فیشن ادارے کی سربراہ ہونے سمیت متعدد فیشن میگزینز میں لکھتی رہتی ہیں، جب کہ انہیں عرب فیشن میں ایک مشیر کی بھی اہمیت حاصل ہے۔

اس پروگرام میں مریم موصالی کہنا تھا کہ’جس طرح دنیا کے دیگر ممالک کی خواتین اپنی پسند کے خاص جوتوں، ہینڈ بیگز اور کپڑوں کو پسند کرتی ہیں، اسی طرح سعودی عرب کی زیادہ تر خواتین بھی خود سے عبایہ کو پسند کرتی ہیں۔

مریم موصالی نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ سعودی عرب کی حکومت قدامت پسند ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر سعودی خواتین عبایہ کو اپنا قومی لباس سمجھ کر پہنتی ہیں، اور وہ اسے پہن کر فخر محسوس کرتی ہیں، اور وہ اپنے اس لباس کو فخر کے ساتھ دنیا کے آگے پیش کرنا چاہتی ہیں۔

مریم موصالی نے مزید بتایا کہ سعودی عرب کی خواتین عبایہ کے ساتھ دنیا کا دیگر جدید فیشن بھی اپناتی ہیں، یہ سمجھنا غلط ہے کہ وہ عبایہ پہن کر دنیا کے جدید فیشن سے بے خبر ہیں۔

ان کے مطابق اتنا ضرور ہے کہ سعودی عرب کے مختلف شہروں میں عبایہ کے مختلف ڈزائن پہنے جاتے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جدہ میں سب سے زیادہ پرکشش، خوبصورت اور رنگین عبایہ کا استعمال ہوتا ہے، جب کہ دارالحکومت ریاض میں استعمال ہونے والے عبایوں میں قدامت پسندی نظر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سات چیزیں جن کی سعودی خواتین کو اجازت نہیں

ایک کاروباری فیشن خاتون کی حیثیت میں مریم موصالی نے بتایا کہ انہوں نے کئی جدید یورپی و مغربی چیزیں سعودی عرب میں متعارف کرائیں، جو عبایہ پہننے والی خواتین میں مقبول ہوئیں، عبایہ پہننے والی خواتین عالمی فیشن سے باخبر ہیں۔

اس پروگرام میں مریم موصالی سمیت سعودی عرب کی 8 دیگر خواتین فیشن ڈزائنرز نے بھی شرکت کی، جنہوں نے عبایہ اور خواتین کی ترجیحات سے متعلق مریم موصالی کے خیالات سے اتفاق کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں