کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے معروف سماجی کارکن پروین رحمٰن کے قتل کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو غیرقانونی ہتھیار، بارودی مواد رکھنے اور پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے الزامات پر قائم تین مقدمات میں بری کردیا۔

اے ٹی سی نے استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف ناکافی شواہد پیش کیے جانے کے بعد ملزم کو الزامات سے بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔

دریں اثناء رحیم سواتی کے وکیل کی جانب سے موبائل فون کا میموری کارڈ عدالت میں پیش کرنے کے بعد اے ٹی سی نے ملزم کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت کو ملتوی کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: مرکزی ملزم رحیم سواتی پر فرد جرم عائد

ملزم کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ میموری کارڈ میں رحیم سواتی کی ایک ویڈیو موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جرم کے وقت وہ جائے حادثہ پر موجود نہیں تھا۔

واضح رہے کہ پولیس کے مطابق رحیم سواتی کو گذشتہ سال مئی میں منگھوپیر کے علاقے سلطان آباد میں کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس کے قبضے سے غیرقانونی اسلحہ اور بارودی مواد بھی برآمد ہوا تھا۔

ملزم کی گرفتاری کے وقت پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ رحیم سواتی ہی پروین رحمٰن قتل کیس کا مرکزی ملزم ہے، بعد ازاں اقدام قتل، غیرقانونی اسلحہ اور بارودی مواد رکھنے کے مقدمات میں ملزم کا ریمانڈ بھی حاصل کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اورنگی پائلٹ منصوبے کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کو مارچ 2013 میں منگھوپیر روڈ پر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پروین رحمن کا مبینہ قاتل مانسہرہ سے گرفتار

قتل کے زیر حراست ملزمان احمد خان عرف احمد علی عرف پپو کشمیری اور محمد عمران سواتی کے خلاف مقدمے کا ٹرائل اے ٹی سی میں التوا کا شکار ہے جبکہ رحیم سواتی، ایاز سواتی، امجد آفریدی اور شالدار خان کو اکتوبر 2015 میں پیش کی جانے والی آخری چارج شیٹ میں مفرور ظاہر کیا گیا تھا۔

چارج شیٹ کے مطابق دوران تفتیش ملزم عمران نے بتایا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے رحیم سواتی، اس کے بہنوئی شالدار و دیگر نے یہ قتل کیا۔

ملزم عمران نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ 2010 میں عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک تھا اور قتل کی منصوبہ بندی کے لیے ہونے والی میٹنگ کا حصہ تھا۔


یہ خبر 22 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں