صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے خودکش کار بم دھماکے میں جمعیت علماء اسلام (نظریاتی) کے رہنما، 7 پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد ہلاک جبکہ 24 زخمی ہوگئے۔

بم دھماکا کوئٹہ کے انتہائی حساس علاقے شہداء چوک پر قائم انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس احسن محبوب کے دفتر کے قریب ہوا۔

کوئٹہ سول ہسپتال کے ترجمان وسیم بیگ کے مطابق دھماکے کے بعد 13 میتوں اور 20 زخمی افراد کو سول ہسپتال لایا گیا۔

دھماکے میں ہلاک ہونے والے 12 افراد کی میتیں ورثاء کے حوالے کردی گئیں جبکہ ایک لاش کی شناخت نہ ہوسکی۔

کوئٹہ دھماکے کے بعد تباہ شدہ گاڑی نظر آرہی ہے— فوٹو: ڈان نیوز
کوئٹہ دھماکے کے بعد تباہ شدہ گاڑی نظر آرہی ہے— فوٹو: ڈان نیوز

دیگر میتوں کی شناخت ساجد علی، غنی خان، غلام شبیر، فیصل خان، سجاد حسین، محمد امین، ثناءاللہ، محمد نعیم، لعل خان، محمد کاشف اور جمعیت علماء اسلام نظریاتی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالرحمٰن کے نام سے ہوئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 9 پولیس اہلکاروں کے علاوہ زخمیوں میں ایک خاتون اور بچی سمیت 4 فوجی اہلکار بھی شامل تھے اور زخمی اہلکاروں کو علاج کے لیے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی نئی ویڈیو جاری

واقعے کے بعد ریسکیو عملے نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو علاج کے لیے کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کیا، جبکہ سول ہسپتال کی سیکیورٹی سخت کردی گئی۔

سیکیورٹی اہلکار لوگوں کو جائے وقوعہ کی جانب جانے سے روک رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
سیکیورٹی اہلکار لوگوں کو جائے وقوعہ کی جانب جانے سے روک رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

واقعے کے حوالے سے پولیس کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق ایک گاڑی میں 18 سے 20 کلو گرام دھماکا خیز مواد نصب تھا جسے پولیس نے آئی جی دفتر کے قریب روکا تاہم اس میں موجود ڈرائیور نے گاڑی کو دھماکے سے اڑا لیا۔

دھماکے کے نتیجے میں مذکورہ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی جبکہ اس کے قریب موجود دیگر گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

دوسری جانب دھماکے کے فوری بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کا آغاز کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: درگاہ شاہ نورانی میں دھماکا، 52 افراد ہلاک

پولیس نے بتایا کہ دھماکہ کوئٹہ کے انتہائی حساس علاقے میں کیا گیا جہاں سیکیورٹی انتہائی سخت تھی جبکہ دھماکے کے مقام سے کچھ دور ہی ایک پولیس چوکی بھی موجود تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ گلستان روڈ پر قائم آئی جی کے دفتر کے قریب ہونے والے دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی اور اس کے نتیجے میں قریبی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔

دھماکے کے بعد سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کردیئے گئے — فوٹو: ڈان نیوز
دھماکے کے بعد سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کردیئے گئے — فوٹو: ڈان نیوز

دھماکے کے فوری بعد بی ڈی ایس کے عملے کو بھی جائے وقوعہ پر طلب کیا گیا۔

ترجمان بلوچستان حکومت

بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکٹر نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گردی کا افسوس ناک واقعہ ہے اور دھماکا خیز مواد ایک پک اپ میں رکھا گیا تھا۔

صوبائی ترجمان نے 5 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو سول ہسپتال میں طبی دی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خودکش دھماکا، 70افراد ہلاک

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ابتدائی معلومات ہیں تاہم پولیس تفتیش کے بعد ہی اصل صوت حال سامنے آسکے گی۔

ڈپٹی انسپکر جنرل پولیس کوئٹہ

ادھر ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے جائے وقوعہ پر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق دھماکا پولیس چوکی کے قریب ہوا ہے تاہم اس بات کی تفتیش کی جارہی ہے کہ دھماکے کی نوعیت کیا تھی۔

انھوں نے دھماکے میں ایک پولیس اہلکار کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سول ہسپتال میں زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولیات دی جارہی ہیں۔

دھماکے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ پولیس تفیش کے بعد ہی اصل صورت حال سامنے آسکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ، 61اہلکار جاں بحق، 117زخمی

ڈان نیوز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کچھ سال قبل بھی دہشت گردوں نے اس مقام کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے، اس واقعے کے بعد اس چوک کا نام شہدا چوک رکھا گیا تھا، جسے آج ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔

خیال رہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی جانب سے فورسز کا نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے جس کے بارے میں صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ ملوث ہے، جو مقامی علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیموں کو مدد فراہم کررہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں