وفاق کے زیر انتظام فاٹا کی کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار میں یکے بعد دیگرے 2 دھماکوں کے نتیجے میں 41 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔

دونوں دھماکے ٹل اڈہ کے قریب طوری مارکیٹ میں ہوئے، پہلے دھماکے کے بعد جیسے ہی لوگ جائے دھماکا پر پہنچے تو دوسرا دھماکا ہوگیا۔

دھماکوں کے بعد سیکیورٹی فورسز کے دستوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور دھماکے کی جگہ کو سیل کردیا گیا۔

دھماکوں کے زخمیوں کو ڈسٹرکٹ جنرل ہسپتال پاراچنار منتقل کیا گیا جبکہ میڈیکل اسٹاف کی عید کی چھٹیاں ختم کرکے علاقے کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

دھماکے کے عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مصروف طوری مارکیٹ میں ہونے والے پہلے دھماکے سے تھوڑی دیر قبل ہی قریب کچھ فاصلے پر یوم القدس کا مظاہرہ اختتام پذیر ہوا تھا۔

دوسری جانب مقامی سیاسی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ دھماکے کے وقت لوگوں کی بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں کو روانہ ہونے کے لیے ٹل اڈہ کے بس ٹرمینل پر جمع تھی، جبکہ طوری مارکیٹ میں بھی عید کی خریداری کے باعث رش تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’آرمی ایوی ایشن کے 2 ہیلی کاپٹرز پشاور سے پاراچنار روانہ ہوچکے ہیں، تاکہ زخمیوں کو جلد از جلد پشاور منتقل کیا جاسکے۔‘

پاراچنار ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر صابر حسین نے دھماکوں میں 31 ہلاکتوں کی تصدیق کی۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز نے 11 شدید زخمی افراد کو پشاور منتقل کیا جبکہ 85 افراد کو پاراچنار میں ہی طبی امداد کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈاکٹر صابر حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے جائے دھماکا سے کچھ لاشوں کو پہلے ہی لے جایا جاچکا ہو۔

گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے پاراچنار دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے پولیٹیکل انتظامیہ سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔

انہوں نے دھماکوں میں قیمتی جانوں کے ضیاء پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کو ہر ممکن طبی امداد فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔

یاد رہے کہ جمعہ کی صبح کوئٹہ میں بھی بم دھماکے کے نتیجے میں 7 پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

بم دھماکا کوئٹہ کے انتہائی حساس علاقے گلستان روڈ پر قائم انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس احسن محبوب کے دفتر کے قریب ہوا۔

پاراچنار میں، جس کی آبادی تقریباً 50 ہزار سے زائد ہے، گزشتہ عرصے سے سیکیورٹی کے انتظامات سخت رکھے گئے ہیں اور جہاں آرمی اور پیراملٹری فورس کی جانب سے شہر کی طرف جانے والے تمام راستوں پر چیک پوائنٹس کی گئی ہیں۔

31 مارچ کو بھی پاراچنار کے نور بازار میں دھماکے کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

پاراچنار کا نور بازار کرم ایجنسی ہیڈ کوارٹر کا مصروف ترین علاقہ ہے، جہاں بہت سی دکانیں ہیں جبکہ اسی علاقے میں امام بارگاہ بھی موجود ہے۔

قبل ازیں 22 جنوری کو پاراچنار میں ریموٹ کنٹرول دھماکے کے نتیجے میں 25 افراد جاں بحق جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ شاہد علی کے مطابق پارا چنار کی عید گاہ مارکیٹ میں واقع سبزی منڈی میں دھماکا اُس وقت ہوا، جب وہاں لوگ کافی تعداد میں خریداری میں مصروف تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں