واشنگٹن: دو امریکی قانون سازوں نے پاکستان کی اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے کانگریس میں ایک دو فریقی بل پیش کر دیا۔

کانگریس میں ریپبلکن کے نمائندے ٹیڈ پو اور ڈیموکریٹ کے نمائندے رک نولان نے یہ بل پیش کیا اور موقف اختیار کیا کہ چونکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مؤثر طریقے سے جنگ لڑنے میں ناکام ہوچکا ہے لہٰذا پاکستان امریکی مالی اور فوجی امداد کا مستحق نہیں ہے۔

تاہم اس بل کا بنیادی مقصد 2004 میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں امریکا کی مدد کرنے پر اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کی جانب سے پاکستان کو حاصل ہونے والی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کا پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں سختی پر غور

امریکی کانگریس میں اگر یہ بل منظور کر لیا جاتا ہے تو اس سے دونوں ممالک کے فوجی روابط کو شدید دھچکا لگے گا۔

غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت سے ملک کو بین الاقوامی امداد اور دفاعی تعاون جیسے فوائد حاصل ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ غیر نیٹو اتحادی ممالک فوجی سازو سامان کی تیزی سے منتقلی اور ہتھیاروں کی فروخت کے عمل کے اہل ہوتے ہیں۔

غیر نیٹو اتحادی حیثیت کا حامل ملک امریکی قرض ضمانتی پروگرام سے بھی مستفید ہو سکتا ہے جس کے مطابق ہتھیاروں کی برآمدات میں نجی بینک بھی قرض دے سکتا ہے۔

ایک غیر نیٹو اتحادی ملک امریکی فوجی سامان کا ذخیرہ بھی کر سکتا ہے اور دفاعی ترقیاتی پروگراموں میں بھی حصہ لے سکتا ہے اس کے علاوہ وہ ملک جدید ترین ہتیار بھی خرید سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مضبوط شراکت کا خواہاں: وزیراعظم

ٹیڈ پو کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے ہاتھوں پر لگے مبینہ امریکی خون کا حساب دینا ہوگا۔

اٹھارہویں صدی کے امریکی جنرل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان امریکی فوج کا 'بینیڈکٹ آرنلڈ اتحادی' کی طرح کام کر رہا ہے۔

ٹیڈ پو اس وقت امریکی خارجہ کمیٹی کے رکن ہیں اور ذیلی کمیٹی برائے دہشت گردی، عدم پھیلاؤ اور تجارت کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ہمیشہ ہی پاکستان مخالف قرارد کانگریس میں پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

ٹیڈ پو کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کو پالنے سے لیکر طالبان کی پشت پناہی کرنے تک پاکستان نے بضد ہو کر ان کے خلاف معنی خیز انداز میں کارروائیاں کرنے سے انکار کیا ہے جو مخالف نظریات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

ایک اور خبر پڑھیں: پاکستان کو امریکی سیکیورٹی امداد میں 73 فیصد کمی

ماہرین کا ماننا ہے افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کانگریس میں اس بل کی منظوری کو روکنے کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ امریکا افغانستان میں فوجی سامان کی ترسیل کے لیے پاکستان سے زمینی راستہ استعمال کر رہا ہے۔

ٹیڈ پو کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ایک واضح وقفہ لینا ہوگا یا پھر کم از کم پاکستان کی امریکی جدید ہتھیاروں کے حصول اور خریدو فروخت کی اہلیت کو روکنا ہوگا جو اسے غیر نیٹو اتحادی ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔

رک نولان نے ٹیڈ پو کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بار بار امریکا کی خیر سگالی کا فائدہ اٹھایا اور امریکا کا اتحادی اور دوست ملک نا ہونے کا بھی مظاہرہ کیا۔

انہوں نے امریکی انتظامیہ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے پاکستان کو گذشتہ 15 برسوں میں اربوں ڈالر کی مدد کی ہے اس سے دہشت گردی کے خلاف مؤثر طریقے سے جنگ لڑنے اور امریکا کو خطے میں محفوظ بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا 'اب امریکا کو اس بات سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا ان ہی دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ روابط ہیں جن کے خلاف وہ جنگ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے'۔

انہوں نے باور کرایا کہ گذشتہ برس اگست میں اس وقت کے امریکی سیکریٹری دفاع ایش کارٹر نے پاکستان کو دی جانے والی 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد کو روک دیا تھا کیونکہ وہ پاکستان کی حقانی نیٹ ورک کے خلاف موزوں کارروائی کی وضاحت نہیں کر پائے تھے۔


یہ خبر 24 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں