پنکج جین ایک تاجر ہیں جو ہندوستان میں عنقریب نافذ ہونے والے نئے سیلز ٹیکس کے حوالے سے پریشان ہیں، وہ اپنی چھوٹی سی ٹیکسٹائل کارخانے کو ایک ماہ کے لیے بند کرنے پر غور کر رہے ہیں تا کہ انہیں خود کو سنبھالنے کے لیے کچھ وقت مل جائے۔

پنکج ہندوستان کے ان لاکھوں چھوٹے تاجروں میں سے ایک ہیں جنہیں آزادی کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹیکس اصلاحات کے تحت پیدا ہونے والی تلخ تبدیلی کا سامنا ہے، یہ اصلاحات ملک کی 20 کھرب ڈالرز کی معیشت اور ایک ارب 20 کروڑ لوگوں کو مشترکہ منڈی میں ضم کر دیں گی۔

مگر وہ حکومت کی جانب سے پہلی بار یکم جولائی سے نافذ کردہ ٹیکس دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے، جس کے تحت انہیں اپنے کارخانے میں بننے والی بیڈ کی چادروں کا ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، جسے اس کے 10 مزدور تیار کرتے ہیں، جبکہ اس کے ساتھ انہیں ہر ماہ آن لائن ٹیکسز ادا کرنے ہوں گے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ مختلف وفاقی اور صوبائی ٹیکس کے بجائے نئے گڈز اور سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) سے کاروبار میں کافی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔

ہندوستان کے 29 صوبوں کے درمیان رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے جی ایس ٹی سے بڑی کاروباری سرگرمیوں کو فائدہ ہو گا۔ ایچ ایس بی سی کے ایک اندازے کے مطابق اصلاحات سے معاشی ترقی میں 0.4 فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

جبکہ مقامی سطح کی انڈین انڈسٹریز ایسوسی ایشن، جس میں 6 ہزار 500 کمپنیاں شامل ہیں، میں جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں۔

جی ایس ٹی کے حوالے سے معاملات سنبھالنے والے ایک اعلیٰ سطح کے سرکاری افسر، ریونیو سیکریٹری ہنس مکھ آدھیہ نے سرمایہ داروں کی جانب سے ٹیکس پیچیدہ ہونے اور بے تحاشا مہنگے آئی ٹی بیک اینڈ جس کے تحت وصولی ہوگی، کے حوالے سے شکایات کو مسترد کر دیا ہے۔

تاہم حکومت نے جولائی اور اگست کی ادائگیاں سادہ انداز میں کرنے کی اجازت دی ہے۔ مگر ستمبر سے انہیں سالانہ 37 آن لائن ادائیگیاں ہر ماہ تین اور سال کے آخر میں ایک اپنے اپنے صوبے کو کرنی ہوں گی۔

جی ایس ٹی ٹیکس کے عنقریب نفاذ کی صورتحال کا موازنہ گزشتہ نومبر میں بڑے نوٹوں کو ختم کرنے کے مودی کے فیصلے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے کیا جا رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

شیو شنکر مہاجن Jun 29, 2017 08:15pm
کرپشن کی روک تھام اور ملکی معیشت کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ کچھ سخت اقدامات کیے جائیں۔ جس ملک کی حکومتیں امیر اور با اخلاق ہوتی ہیں وہاں عوام خوشحال ہوتے ہیں جس کی مثال اسکینڈی نیوین ممالک ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک کو چاہئے کہ وہ بھی ایسی ہی معاشی اصلاحات پر عمل کریں تاکہ یہاں بھی خوشحالی آ سکے۔ میرے خیال میں کرپشن کی روک تھام اور ٹیکس اویژن اور ٹیکس چوری جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام شہریوں کو پابند کیا جائے کہ 10 ہزار روپے سے زائد کی خریداری / ادائیگی / وصولی چیک کے ذریعے ہونا چاہئے۔ اگر پیمنٹس اور ریسیو ایبلز کا نظام ڈاکیومینٹڈ ہوگیا تو امکان ہے کسی نہ کسی حد تک کرپشن ختم ہو سکے گی اور دیگر مسائل سے بھی نمٹا جا سکے گا۔