گلگت: دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کرنے والے کوہ پیماؤں کے ایک گروپ کے 2 غیر ملکی اپنے باقی ساتھیوں سے علیحدہ ہوکر لاپتہ ہوگئے، جن کی تلاش کا کام جاری ہے۔

اسپین سے تعلق رکھنے ولے البریٹو زیرائین بیراساٹی اور ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والے ماریانو گلاکان ایک 14 رکنی گروپ کے ساتھ 'قاتل پہاڑ' کے طور پر مشہور سطح سمندر سے 8 ہزار 1 سو 26 میٹر بلند دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی کو سر کرنے کی مہم پر تھے۔

پولیس کے مطابق نانگا پربت سر کرنے کی مہم جوئی کرنے والے 14 رکنی گروپ کے 12 افراد موسم کی خرابی کے باعث واپس اپنے بیس کیمپ پر آگئے جبکہ 2 افراد گذشتہ 3 روز سے اپنی ٹیم کے ساتھ رابطے میں نہیں ہیں۔

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہسپانوی اور ارجنٹائن کوہ پیما شاید کسی برفانی طودے کی زد میں آگئے ہیں۔

مزید پڑھیں: پہاڑوں کے دیس میں کوہ پیماؤں کی ناقدری کیوں؟

نانگا پربت کو سر کرنے کی اس مہم کے منتظم محمد اقبال نے ڈان کو بتایا کہ لاپتہ کوہ پیما کو تلاش کرنے کے لیے ریسکیو کا عمل جاری ہے۔

عمومی طور پر نانگا پربت سر کرنے کے لیے کوہ پیماؤں کو 45 دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق ایک زمینی ٹیم لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش میں مصروف ہے جبکہ خراب موسم کے باعث ہیلی کاپٹر ان افراد کی تلاش میں حصہ نہیں لے سکے۔

الپائن کلب پاکستان کے ترجمان قرار حیدری کے مطابق مناسب کھانے کی عدم دستیابی اور غیر موزوں موسمی حالات کی وجہ سے لاپتہ افراد کو صحیح سلامت ڈھونڈ لینا مشکل ہے تاہم ریسکیو کی ٹیمیں ان افراد کی تلاش کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ کوہ پیما ٹومیز ہیومر کی طرح تلاش کر لیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما کی طبیعت ناساز

سلوانیہ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما ٹومیز ہیومر 2005 میں نانگا پربت سر کرتے ہوئے لاپتہ ہوگئے تھے جنہیں پاک آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے 6 ہزار میٹر کی بلندی پر 6 دن میں تلاش کر لیا تھا۔

یاد رہے کہ 2013 میں نانگا پربت پر 4 ہزار 2 سو میٹر کی بلندی پر پولیس کی وردی میں ملبوس مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 10 غیر ملکی کوہ پیماؤں اور 1 مقامی گائڈ کو ہلاک کردیا تھا۔

اس واقعہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی جس کے بعد پاکستان میں دنیا کی بلند ترین پہاڑوں کو سر کرنے کی مہمات میں واضح کمی ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ کوہ پیماؤں کی پاکستان آمد میں کمی کی وجہ سے مقامی افراد کی معاشی زندگی پر بھی گہرا اثر ہوا کیونکہ مقامی آبادی کا زیادہ تر گذر بسر ان مہمات پر ہی ہوتا ہے جو غیر ملکی کوہ پیماؤں کی رہنمائی کرکے اپنی روزی کماتے ہیں۔


یہ خبر 29 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں