واشنگٹن: امریکی سینیٹر جان مک کین نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان حقانی نیٹ ورک کی حمایت ترک نہیں کرتا تو امریکا کو بھی پاکستانی قوم کے ساتھ اپنا رویا بدل لینا چاہیے۔

امریکی سینیٹر کی جانب سے آنے والے بیان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ امریکا اپنے سب سے قریبی اتحادی کے ساتھ رویے کو تبدیل کر رہا ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹر جان میک کین نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے۔

جان مک کین نے کہا، ’ہم نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ پاکستان ہمارا ساتھ دے گا اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے گا'۔

مزید پڑھیں: ’باہمی اختلافات امریکا اور پاکستان دونوں کے مفاد میں نہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان اپنا رویہ نہیں بدلتا تو پھر ہمیں (امریکا کو) بحیثیت قوم پاکستان کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کر لینا چاہیے‘۔

پاکستان میں موجود ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی سینیٹر اور ان کے وفد کی کابل روانگی سے قبل اسلام آباد میں پاکستانی فوج کے اعلیٰ حکام نے انہیں بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان اب کوئی روابط نہیں ہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں کوئی بھی عسکریت پسند پکڑا گیا تو اسے گرفتار کرکے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

امریکا کے علاوہ، حال ہی میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹالٹین برگ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ ایک ملک ایسے دہشت گردوں کو پناہ دے جو دوسرے ملکوں میں دہشت گرد کارروائیاں کرے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں روسی مداخلت: امریکا پاکستان کو کیسے دیکھتا تھا؟

حال ہی میں پینٹا گون کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا بیرونی عنصر پاکستان ہے۔

رپورٹ میں مبینہ طور پر بتایا گیا کہ پاکستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی اعلیٰ قیادت کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔

یاد رہے کہ پینٹاگون نے امریکی سینیٹر کے سامنے اسلام آباد اور کابل کے دورے سے قبل ہی ’افغانستان میں امن و امان کی صورتحال‘ کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی تھی۔

کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جان میک کین کا کہنا تھا کہ ’ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم افغانستان میں جنگ جیتنے کی راہ پر گامزن ہیں‘۔

مزید پڑھیں: پاکستانی سفیر کی امریکا سے افغانستان کے معاملے پر گفتگو

پینٹا گون کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے اور کسی بھی دہشت گرد یا پھر انتہا پسند گروپ کو محفوظ پناہ گاہیں نہ بنانے دے۔

تاہم پینٹاگون رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ پاکستان کو افغانستان میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے روک رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے افغانستان میں مبینہ طور پر انتہا پسندوں کی مدد کرنے کی بھی یہی وجہ ہے۔

پینٹاگون کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان، افغانستان کے امن و استحکام اور امریکی و نیٹو افواج کی کارروائیوں کے نتائج پر اثر انداز ہونے والا سب سے با اثر عنصر ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ داعش کے خراسان گروپ کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان نے امریکی اور افغان فورسز کو مدد فراہم کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں پاکستان میں موجود انتہا پسند عناصر ملوث ہیں جن میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک شامل ہیں جبکہ پاکستان کو یقین ہے کہ افغانستان میں موجود انتہا پسند عناصر پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے میں ملوث ہیں اور ان ہی وجوہات کی بنا پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔


تبصرے (0) بند ہیں