Dawnnews Television Logo

غریبوں کے گھیرے میں ارب پتی ’بے چارے‘

پاکستان کاہر تیسراشخص خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہاہے،ان غریبوں کے ووٹ سے حکمران بننے والوں کی دولت کا کوئی شمار نہیں۔
شائع 16 جولائ 2017 03:52pm

حکومت نے گذشتہ سال ایک سروے کروایا جس میں یہ اعداد وشمار سامنے آئے کہ پاکستان کی تقریبا 60 ملین (6 کروڑ) عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، تاہم حال ہی میں الیکشن کمیشن کے جاری اعداد و شمار بتاتے ہیں پاکستان کے اس قدر غریب عوام کی قیادت کرنے والے سیاست دان ارب ہا ارب روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔

یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی کہ پاکستان میں جہاں عوام کی ایک کثیر تعداد نہ صرف غریب ہے بلکہ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس کے حکمران نہ صرف امیر ترین ہیں بلکہ اب وہ کروڑوں پتی بھی نہیں بلکہ ارب پتی ہیں۔

جہاں غریب عوام کو 2 وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ لیکن ان کے حکمران نہ صرف ارب پتی ہے بلکہ ان کے سرمائے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، جو ناقابل یقین حد تک بڑھتا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان امیر ترین رکن پارلیمنٹ

اس سارے معاملے میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کا ہاتھ ہیں وہیں سیاستدانوں نے بھی اپنا کردار خوب ادا کیا، جن کی پالیسیز نے ملک کی غریب عوام کو غریب سے غریب تر کردیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ امیر کو امیر سے امیر تر کرنے میں خوب تن دہی سے کام کیا ہے اور اس بات کا ادراک ہی نہیں کررہے کہ ان کی وجہ سے نہ صرف عوام بلکہ ملک کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

عوامی حلقے بنیادی سہولیات اور حقوق کے لیے آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں--فوٹو : شٹر اسٹاک
عوامی حلقے بنیادی سہولیات اور حقوق کے لیے آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں--فوٹو : شٹر اسٹاک

حکومت کے 14-2013 کے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق تناسب کے لحاظ سے آبادی کا 29.5 فیصد حصہ غریب شمار ہو رہا تھا، مالیاتی اصطلاح میں ماہانہ 3 ہزار 30 روپے سے کم کمانے والا ہر بالغ شخص خط غربت سے نیچے موجود تھا۔

تاہم گذشتہ سال ہونے والے ایک سروے کے مطابق نئے تخیمنہ سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 68 لاکھ (6.8 ملین) سے 76 لاکھ (7.6 ملین) کے درمیان ہے، یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان کی کل آبادی تقریبا 20 کروڑ ہے جبکہ حالیہ مردم شماری کے نتائج کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔

ویسے تو غربت کے حوالے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس میں کمی آئی ہے جو 2004 میں 55 فیصد تھی اور اب کم ہو کر 35 فیصد باقی بچی ہے، تاہم تیسری دنیا میں حکومتیں میکاویلی کے نظریئے کے مطابق دعوے کرنے پر ہی یقین رکھتی ہے۔

الیکشن کمیشن کے حالیہ پیش کیے جانے والے اعداد وشمار سے واضح ہوتا ہے ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اور یہاں کے سیاست دان سرمائے کی ریل پیل میں لوٹ پھوٹ ہو رہے ہیں، اس کی ایک مثال موجودہ وزیراعظم نواز شریف کی ہے، 2012 میں وزیراعظم کے اثاثوں کی مالیت 26 کروڑ 16 لاکھ روپے تھی تاہم تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے پہلے ہی سال ان کے اثاثوں میں 6 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا اور 2013 میں ان کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 82 کروڑ روپے تک جاپہنچی اور وہ پہلی بار اعلانیہ ارب پتی بن گئے، یہ بھی یاد رہے کہ وزیراعظم کے اثاثے 2014 میں 2 ارب روپے سے تجاوز کرگئے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک تہائی پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے

الیکشن کمیشن کے مطابق وزیراعظم نے زرعی اراضی کے ساتھ شوگر، ٹیکسٹائل اور پیپر ملز جیسے کئی صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، غریب عوام کے حکمران نے 2015 میں پہلی مرتبہ پرندوں اور جانوروں کی ملکیت بھی ڈکلیئر کی تھی، جن کی قدر و قیمت 50 لاکھ تھی۔

غربت کی شرح میں کمی کے دعوے ہر حکومت کرتی آئی ہے--فوٹو : شٹر اسٹاک
غربت کی شرح میں کمی کے دعوے ہر حکومت کرتی آئی ہے--فوٹو : شٹر اسٹاک

دوسری جانب پاکستان کےعوام کی آواز ہونے کا دعویٰ کرنے اور ملک کی غریب عوام کے لیے دکھ بھری آواز اٹھانے والے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی ارب پتی ہیں، وہ ایک ارب 40 کروڑ روپے سے زائد اثاثوں کے مالک ہیں، جن میں گذشتہ 5 سال کے دوران اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق 2012 میں عمران خان کے اثاثے محض 2 کروڑ 29 لاکھ روپے تھے اور ان پر 3 لاکھ 80 ہزار روپے کے واجبات تھے، 2013 میں ان کے اثاثوں کی مالیت ایک کروڑ 40 لاکھ روپے تھی، جو 2014 میں بڑھ کر 3 کروڑ 33 لاکھ روپے سے زائد ہوئی، تاہم 2015 میں ان کے اثاثوں میں ایک دم ہی بہت بڑا جمپ آیا وہ بھی ارب پتی ہوگئے، الیکشن کمیشن کے جاری کردہ دستاویزات میں واضح ہوتا ہے کہ ایک ارب 33 کروڑ روپے کے اثاثوں کے ساتھ ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہوئے۔

دیگر ارب پتی اراکین پارلیمنٹ میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی، پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین، اور خیبرپختونخوا کے ارکان خیال زمان اور ساجد حسین طوری شامل ہیں۔

شاہد خاقان عباسی کے ملک کی اہم ترین نجی ایئرلائنز میں 90 کروڑ کے حصص، 40 کروڑ کی زمینیں موجود ہیں، ان کے اثاثوں کی کل مالیت 1 ارب 29 کروڑ کے قریب ہے، ادھر پی ٹی آئی کے رکن خیال زمان کے اثاثوں کی مالیت 1 ارب 89 کروڑ سے زائد ہے، جبکہ پی ٹی آئی کے اہم سینئر رہنما جہانگیر ترین جن کا طیارہ عمران خان عموماً استعمال کرتے ہیں ان کے کل اثاثے صرف 78 کروڑ 10 لاکھ ہیں تاہم ان کی اہلیہ آمنہ ترین بھی 17 کروڑ 26 لاکھ سے زائد اثاثوں کی مالک ہیں۔

تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے اب بھی ملک کے پسماندہ علاقے محروم ہیں--فوٹو : شٹر اسٹاک
تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے اب بھی ملک کے پسماندہ علاقے محروم ہیں--فوٹو : شٹر اسٹاک

پاراچنار سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن ساجد حسین طوری کی کرم ایجنسی اور اسلام آباد میں موجود جائیدادوں کی مالیت ایک ارب 44 کروڑ روپے ہے جبکہ آٹومیٹک اور سیمی آٹومیٹک اسلحے سمیت دیگر اثاثوں کی مالیت 19 کروڑ سے زائد ہے۔

مزید پڑھیں: 39 فیصد پاکستانی تاحال خط غربت سے نیچے

یہ اعداد و شمار ملک کی غریب ترین عوام کے سیاستدانوں اور ان کی قیادت کرنے والوں کے ہیں، یہ بھی ذہن میں رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کے مزدور طبقے کا کھل کر استحصال شروع کررکھا ہے جو انہیں مزید غربت کی جانب دھکیل رہا ہے۔

ویسے تو غربت کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں ملک کی معیشت کا بڑا کردار ہوتا ہے لیکن یہ سننے اور دیکھنے میں عجیب ہے کہ اس گرتی ہوئی معیشت بھی ملکی قیادت کے اثاثوں پر اثر انداز نہیں ہورہی اور صرف غریب عوام کو ہی متاثر کررہی ہے۔

کرپشن بھی ملک میں غربت میں اضافے کی ایک وجہ ہے، کہنے کو تو ہر دور کی سرکار یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ وہ بدعنوان نہیں ہے لیکن عوام یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک معمولی کام کے لیے بھی ’فائل کو پہیے لگانے کی ضرورت پڑتی‘ ہے۔

امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کئی حوالوں سے خطرناک بھی ہو سکتی ہے-- فوٹو : شٹر اسٹاک
امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کئی حوالوں سے خطرناک بھی ہو سکتی ہے-- فوٹو : شٹر اسٹاک

یہ مسئلہ ابھی کا نہیں ہے اس کا آغاز قیام پاکستان کے وقت ہی ہو گیا تھا جب تقسیم پاکستان کے وقت ہی آنے والے بے یارو مددگار افراد کو ان کے کلیم کے بدلے میں مکانات اور دیگر جائیداد کے لیے رشوت طلب کی جاتی تھی اور یہ معاملہ جوں کا توں جاری ہے تاہم اس میں سرکار کے حالات کے مطابق کمی بیشی ہوتی آئی ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں