کراچی کے علاقے اسکیم-33 سے ایک قومی اخبار دی نیشن کے رپورٹر عبداللہ ظفر کو ان کے گھر سے سادہ لباس افراد نے مبینہ طور پر حراست میں لے لیا۔

ڈان کو عبداللہ کے والد ظفر نے بتایا کہ رات 3:30 بجے کے قریب سادہ لباس میں 10 سے 15 افراد ان کے گھر آئے اورجیسے ہی دروازہ کھلا تو تمام افراد رپورٹرکے کمرے میں گھسے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی دوران عبداللہ بھی جاگا اوران سے بات چیت کی اوراپنا پریس کارڈ بھی دکھایا لیکن وہ افراد ان کے چہرے پر کپڑا ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام افراد تین گاڑیوں میں سوار تھے جن میں سے دو پولیس کی وردی میں تھے جبکہ دیگر افراد سادہ لباس میں تھے۔

ظفر کا کہنا تھا کہ انھی افراد نے شاہ فیصل کالونی میں ان کے بھائی کے گھر پر 'کارروائی' کی جو ان کے ساتھ تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ حال ہی میں شاہ فیصل کالونی سے لائرز سوسائٹی میں منتقل ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میں خاتون صحافی کا پر اسرار قتل

ظفر کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو اٹھانے سے قبل انھوں نے 5 کروڑ کا 'جعلی چیک' دینے کا الزام عائد کیا جو 'باؤنس' ہوا تھا تاہم انھوں نے اپنے بیٹے پر اس طرح کے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا۔

اپنے بیٹے کے حوالے سے انھوں نےواضح کیا کہ ان کا کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پولیس میں رپورٹ درج کروانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ قریبی سچل تھانہ گئے تھے تاہم پولیس ایف آئی درج کرانے سے کترارہی تھی اور ایک عہدیدار نے رجسٹر میں ریکارڈ کیے بغیر ان کی درخواست وصول کی۔

قبل ازیں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے کسی صحافی کو حراست میں نہیں لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی جی سندھ اےڈی خواجہ نے خود انھیں ہدایت کی ہے کہ صحافی کے غائب ہونے کے معاملے کو دیکھاجائے۔

مزید پڑھیں:سال 2016: ’پاکستان میں کوئی صحافی قتل نہیں ہوا‘

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انھوں نے سچل تھانے کے ایس ایچ او کو 'ہدایت' کی ہے کہ اگر صحافی کے اہل خانہ درخواست کریں تو ایف آئی آر درج کرادی جائے۔

دی نیشن کراچی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹرضمیر شیخ کا کہنا تھا کہ عبداللہ گزشتہ تین برسوں سے اخبار سے منسلک ہیں اورسیاسی رپورٹنگ کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ کراچی میں حال ہی میں خاتون صحافی زیبا برنی کو ان کے گھر میں قتل کردیا گیا تھا تاہم پولیس نے ان کے قاتل کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن ذوالفقار مہر کا کہنا تھا کہ پولیس کے لیے یہ کیس ایک چیلنج تھا، کیس میں شواہد کم تھے لیکن انویسٹی گیشن ٹیم نے مختصر عرصے میں کیس حل کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ مبینہ قاتل کاشف جمیل نے یہ قتل پیسے، موبائل اور زیورات لوٹنے کے لیے کیا، خاتون صحافی نے شدید مزاحمت کی جس پر قاتل نے انھیں بجلی کے تار سے گلا گھونٹ کر قتل کردیا۔

زیبا برنی، جو 30 سال سے زائد عرصے تک صحافت کے شعبے سے وابستہ رہیں، نوائے وقت اخبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اپارٹمنٹ میں تنہا رہ رہی تھیں۔

زیبا برنی کی لاش خدادا کالونی میں واقع ان کے فلیٹ سے ملی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں