کراچی سینٹرل جیل سے کالعدم لشکرِ جھنگوی کے دو 'خطرناک دہشت گردوں' کے فرار ہونے کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ جیل کے امور کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے چند عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہیں جبکہ جیل کا عملہ خوف اور نااہلی کی وجہ سے ان عسکریت پسندوں کے احکامات ماننے پر مجبور ہے۔

اس معاملے پر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ فرار ہونے والے دہشت گردوں نے چند قیدیوں کی جانب سے جیل انتظامیہ کو 'دانستہ اور منظم طریقے سے ڈرانے دھمکانے' کو واضح کردیا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ 'جیل حکام ان عسکریت پسندوں کے ساتھیوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے خوف سے نظم و ضبط کو یقینی بنانے میں 'بےبس' دکھائی دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ کراچی جیل کے جوڈیشل کمپلیکس سے فرار ہونے والے خطرناک دہشت گردوں شیخ محمد ممتاز عرف فرعون اور محمد احمد عرف منا کو چار سال قبل سی ٹی ڈی نے حراست میں لیا تھا، یہ دونوں دہشت گرد پولیس افسران، سیاسی جماعتوں کے کارکنان، شیعہ برادری کے افراد سمیت 60 سے زائد افراد کے قتل میں ملوث تھے۔

دوران تحقیقات سی ٹی ڈی کو اس بات کا بھی علم ہوا کہ جیل انتظامیہ جیل میں جاری اس وسیع کرپشن کے نظام کا حصہ بننے کے حوالے سے 'زیادہ تر مطمئن' تھی، جس کے بعد جیل میں موجود سیاسی جماعتوں اور جہادیوں سے تعلق رکھنے والے قیدی جیل انتظامیہ کو ڈرانے دھمکانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جس کے بعد انہیں تمام سہولیات میسر آتی ہیں اور دیگر قیدیوں کو معمولی سی معمولی شے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی۔

رپورٹ سامنے آنے سے قبل ذرائع کا کہنا تھا کہ 'جیل کے اعلیٰ حکام اور بالخصوص سپریٹنڈنٹ، انتظامی امور کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بالکل چھوڑ چکے تھے'۔

جس کے نتیجے میں قیدی کورٹ کلرک، ہیلپر کی ذمہ داریاں اور وارڈ کھولنے بند کرنے جیسے کام بھی خود ہی سرانجام دے رہے تھے۔

سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق دہشت گرد تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کچھ قیدیوں کو ان کے وارڈز سنبھالنے کا 'ذمہ دار' بنا دیا گیا تھا جو 'ورچوئل بدمعاشوں' کی طرح کام کرتے ہوئے جیل کے باہر بھی اپنا نیٹ ورک سنبھالتے اور انہیں اس کے لیے جیل کی اندر ہی تمام سہولیات مہیا تھیں اور ہائی پروفائل قیدیوں کو دی جانے والی یہ آسانی ہی 13 جون کو دو قیدیوں کے فرار کی وجہ بنی۔

علاوہ ازیں سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ جیل عملے کے احکامات پر عملدرآمد میں ناکامی اور ذمہ داریوں سے دستبرداری کے باعث قیدیوں کے فرار کی خبر ایک روز بعد سامنے آئی۔

خیال رہے کہ ان دونوں دہشت گردوں کے فرار کے پیچھے جیل انتظامیہ کی مجموعی غفلت طے ہے تاہم سی ٹی ڈی نے انکشاف کیا کہ ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں، جیل اسٹاف نے انکوائری ٹیم کو بتایا کہ جیل میں ایسی صورتحال گذشتہ 15-20 سال سے جاری ہے۔

انصاف کی فراہمی میں تاخیر

سی ٹی ڈی کی رپورٹ میں یہ معلومات بھی سامنے آئی کہ کئی قیدی ایسے ہیں جن کے اے ٹی سی کے سامنے پیشی کئی سالوں سے التوا کا شکار ہے لہذا ان افراد کو اپنے گھناؤنےجرائم میں مجرم قرار دیئے جانے کی فکر نہیں۔

انکوائری میں یہ معلومات بھی سامنے آئی کہ مفرور قیدیوں میں سے ایک شیخ ممتاز کو 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا، اے ٹی سی کے سامنے متعدد مقدمات میں چالان بھی پیش کیا گیا تاہم ان میں سے کسی کا فیصلہ نہ ہوسکا۔

مفرور شیخ ممتاز کے ساتھ رہنے والے ایک اور ہائی پروفائل قیدی حافظ قاسم رشید کے حوالے سے یہ معلومات سامنے آئی کہ وہ جیل حکام، پولیس افسران، گوہان سمیت جوڈیشل اسٹاف کو کھلے عام دھمکیاں دے چکا ہے تاہم کوئی اس کے خلاف کچھ نہ کرسکا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: سینٹرل جیل سے بڑی تعداد میں ممنوعہ سامان برآمد

ذرائع نے ڈان کو مزید بتایا کہ ایک اور ہائی پروفائل قیدی سرمد صدیقی جو مبینہ طور پر کراچی ایئرپورٹ پر حملے میں ملوث تھا، وہ بھی جیل کے ایک وارڈ کا 'ذمہ دار' مقرر ہے۔

سی ٹی ڈی نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے عسکریت پسند جیسے کہ منہاج قاضی بھی جیل میں 'ڈان' کے طور پر سرگرم تھے۔

محکمہ انسداد دہشت گردی نے صوبائی انتظامیہ کو تجویز دی کہ ایسے ہائی پروفائل قیدیوں کو ہائی سیکیورٹی میں علیحدہ رکھا جانا چاہیے لیکن اس کے بجائے یہ مبینہ طور پر جیل عملے کو 'احکامات' دے رہے ہیں۔

ایف آئی آر میں موجود خامیاں

سی ٹی ڈی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے جیل انتظامیہ جیل سے قیدیوں کے فرار کی ذمہ داری منتخب لوگوں پر عائد کررہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 'کیس میں کئی ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن پر الزام عائد کرنے کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی جبکہ ایف آئی آر میں کئی ایسے نام موجود ہی نہیں جن پر اس غفلت کی ذمہ داری واضح طور پر عائد ہوتی ہے'۔

سی ٹی ڈی کا ماننا ہے کہ یہ تمام حکام اس لیے بچ گئے کیونکہ انہیں جیل میں طاقتور افراد کی سرپرستی حاصل ہے۔

مزید پڑھیں: سرنگ کے ذریعے سینٹرل جیل توڑنے کا منصوبہ ناکام

سی ٹی ڈی نے اپنی تجویز میں کہا کہ 'یہ ضروری ہے کہ جہادی عسکریت پسندوں کو ملٹری کورٹس بھیج دیا جائے تاکہ ان ٹرائل تیزی سے مکمل کیا جاسکے'۔

اس کے ساتھ محکمے کی جانب سے سندھ کے دور دراز علاقے میں ہائی سیکیورٹی جیل کے قیام کی تجویز بھی پیش کی گئی جہاں سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو دیگر قیدیوں سے دور علیحدہ رکھا جاسکے۔

دریں اثناء ایڈیشنل آنسپیکٹر جنرل (آئی جی) سی ٹی ڈی ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی نے ڈان کو بتایا کہ سی ٹی ڈی کی یہ رپورٹ وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر برائے جیل کو روانہ کی جاچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ انکوائری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جبکہ سی ٹی ڈی تفتیش کے لیے جیل کے عملے میں شامل تین مزید افراد کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔


یہ خبر 11 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں