ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر سائبر ہراساں ہونے والے شخص کو مناسب مدد اور تعاون فراہم نہ کیا جائے تو اسے ڈپریشن، اضطراب، شخصیت میں دائمی کشیدگی اور خودکش خیالات جیسے نفسیاتی امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

ڈجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی ’سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن‘ کی جانب سے جاری ہونے والی شش ماہی رپورٹ، رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران ہیلپ لائن کے آپریشنز سے جمع ہونے والے ڈیٹا پر مشتمل ہے۔

رپورٹ میں شکایت کنندہ کی تعداد، ان کی جنس اور کال کرنے والے کا مقام شامل ہے۔

ڈی آر ایف میں سائبر ہراساں کیے جانے کے نفسیاتی اثرات سامنے لانے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ہراساں کرنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پلیٹ فارم سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ’فیس بک‘ ہے، جس کے ذریعے جعلی پروفائلز بنانے، بغیر اجازت معلومات کا استعمال، بلیک میلنگ، ہیک شدہ اکاؤنٹس اور غیر متوقع پیغامات کی شکایات عام ہیں۔

یکم دسمبر 2016 سے 31 مئی 2017 تک فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائن کو کالز، ای میلز اور فیس بک میسجز کے ذریعے 763 شکایات موصول ہوئیں۔

کال کرنے والے افراد میں زیادہ تر خواتین (63 فیصد) جبکہ باقی 37 فیصد مرد تھے۔

اگرچہ 21 فیصد کالرز نے اپنا مقام خفیہ رکھنا چاہتے تھے، لیکن اس کے باوجود ہیلپ لائن یہ معلوم کرنے میں کامیاب رہی کہ سب سے زیادہ شکایات پنجاب (44 فیصد) سے درج ہوئیں، جن میں سے تقریباً 9 فیصد صرف اسلام آباد سے درج ہوئیں۔

اسی طرح سندھ سے موصول ہونے والی شکایتی کالز کی شرح 19 فیصد، خیبر پختونخوا سے 5 فیصد، بلوچستان سے ایک اعشاریہ 6 فیصد جبکہ آزاد جموں و کشمیر سے صفر اعشاریہ 6 فیصد رہی۔

تاہم یہ ڈیٹا صرف ڈی آر ایف کو موصول ہونے والی شکایتی کالز کی حد تک محدود ہے اور اس سے ملک میں سائبر ہراساں کیے جانے والے کیسز کی صحیح تعداد کی عکاسی نہیں ہوتی۔

ڈجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چند سفارشات بھی پیش کی گئیں، جن میں نیشنل رسپانس سینٹرز فار سائبر کرائم (این آر تھری سی) میں ’ریپِڈ ریسپونس سیل‘ قائم کرنے کی سفارش بھی شامل ہے، کیونکہ این آر تھری سی میں عملہ کم ہونا بھی ہراساں کیے جانے کے کیسز میں تاخیر سے ردعمل دیئے جانے کی ایک وجہ ہے۔

رپورٹ میں ’این آر تھری سی‘ کے موجودہ عملے کو جنسی حساسیت کی تربیت فراہم کیے جانے اور متعلقہ ڈیپارٹمنٹس سے بہتر تعاون کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ ’این آر تھری سی‘ کو رازداری کے عمل کو یقینی بنانے اور نفسیاتی مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ڈی آر ایف تحقیق کی بنیاد پر وکالت کرنے والی پاکستان کی ایک رجسٹرڈ این جی او ہے، جو نگہت داد نے 2012 میں قائم کی۔

این جی او کی مدد حاصل کرنے کے لیے اس کے ٹال فری نمبر 39393-0800 پر پیر کے جمعہ تک، صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کال کی جاسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں