دوحہ: قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے خلیج کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ مشروط مذاکرات پر رضامندی ظاہر کردی۔

خلیجی خبر رساں ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق قطری امیر نے ٹیلی ویژن پر اپنے ایک خطاب میں کہا کہ وہ خلیج میں جاری کشیدگی کو حل کرنے کے لیے ایسے مذاکرات کے لیے تیار ہیں جس سے قطر کی خود مختاری کو نقصان نہ پہنچے۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے قطر پر پابندی لگانے کے بعد قطری امیر کا یہ پہلا خطاب تھا۔

شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ قطر کو ایک 'بے مثال مہم' کا نشانہ بنایا گیا تاہم انہوں نے اس بحران کو حل کرنے کے لیے کویت کی ثالثی کی کوششوں اور امریکا، ترکی اور جرمنی کی مدد کو بھی سراہا۔

مزید پڑھیں: قطر کشیدگی: ’بائیکاٹ اور پابندیاں جاری‘

قطری امیر نے فوری طور پر ترکی اور قطر کے درمیان دوطرفہ معاہدے کو نافذ العمل کرنے اور قطر کی ضروریات کو پورا کرنے پر ترکی کا ’شکریہ‘ بھی ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ قطر ایک واضح اور سوچی سمجھی سازش کا شکار ہونے کے باوجود اس بحران کے دوران ثابت قدم رہا اور اپنے اس امتحان کے ہر مرحلے میں کامیاب ہوا۔

قطری امیر نے خلیج کشیدگی کے دوران ملک کی عوام کی جانب سے استقامت کا مظاہرہ کرنے پر ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شدید بحران کے باوجود قطری عوام نے اپنا حوصلہ پست نہ ہونے دیا۔

اپنے خطاب کے دوران قطری امیر نے واضح کیا کہ قطر دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں کر رہا بلکہ قطر اپنے اس مقصد میں یقین رکھتا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عالمی دنیا قطر کے کردار کی معترف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودیہ کا ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان

قطری امیر نے الزام لگایا کہ 4 ممالک نے قطر کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک جھوٹے بیان کی بنیاد پر عالمی دنیا میں قطر کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کیں اور قطر کی آزادی و خودمختاری پر حملہ کیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز (21 جولائی کو) سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ جاری کشیدگی اور تنازع کے تناظر میں قطر نے اپنے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین میں تبدیلی کا اعلان کیا تھا۔

واضح رہے کہ رواں سال جون میں ہمسایہ ممالک کی جانب سے قطر پر دہشت گرد گروپوں کی مدد کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس کی دوحہ نے تردید کردی تھی۔

رواں برس 6 جون کو سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

بعد ازاں 23 جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر کے سامنے سفارتی و تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی بندش سمیت 13 مطالبات پیش کیے تھے۔

مزید پڑھیں: کویت میں ایرانی ثقافتی مشن بند، سفارتکاروں کو ملک بدر کردیا

جبکہ قطر کو ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے 10 روز کی مہلت دی گئی تھی۔

تاہم قطر نے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے پیش کی گئی مطالبات کی فہرست مسترد کرتے ہوئے ان مطالبات کو نامناسب اور ناقابل عمل قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ ٹی وی چینل الجزیرہ کی بندش کے علاوہ ایران سے تعلقات میں سردمہری لانا اور قطر میں ترک فوجی بیس کو ختم کرنا بھی 13 مطالبات میں شامل تھا۔

علاوہ ازیں قطر کی دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو سہارا دینے کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں امریکا اور خلیجی ملک نے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔

یہ معاہدہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لیے قطر کی جانب سے مستقبل میں کی جانے والی کوششوں اور دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے مسائل سے متعلق ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں