لاپتہ ملائیشین جہاز کی تلاش کیسے کی گئی؟

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2017
جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سمندر کی تہ کی لی گئی تصاویر کو رنگین کیا گیا—فوٹو: جیو سائنس آسٹریلیا
جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سمندر کی تہ کی لی گئی تصاویر کو رنگین کیا گیا—فوٹو: جیو سائنس آسٹریلیا

تین سال قبل مارچ 2014 کے پہلے ہفتے میں ملائیشیا کے دارالحکومت کوالا لمپور سے چین کے دارالحکومت بیجنگ جاتے ہوئے بحر ہند میں لاپتہ ہونے والے ہوائی جہاز کے ملبے کو کوششوں کے باجود نہیں ڈھونڈا جاسکا تھا۔

مسلسل 2 سال کی تلاش اور کوشش کے بعد 2016 میں ملائیشین حکام نے جہاز کی تلاش کا کام بند کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہاز کا ملبہ نہیں ملا۔

ملائیشین ایئر لائن کے طیارے ایم ایچ 370 میں 239 مسافر سوار تھے، جن میں زیادہ تر کا تعلق ملائیشیا، چین اور آسٹریلیا سے تھا۔

جہاز کے ملبے کو ڈھونڈنے کے لیے ان تینوں ملکوں نے مشترکہ طور پر سمندری آپریشن ترتیب دیا تھا، لیکن جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کیے جانے کے باوجود ماہرین جہاز کی کھوج لگانے میں ناکام رہے۔

سمندر کی تہ کی تصاویر میں مختلف رنگ استعمال کیے گئے—فوٹو: جیو سائنس آسٹریلیا
سمندر کی تہ کی تصاویر میں مختلف رنگ استعمال کیے گئے—فوٹو: جیو سائنس آسٹریلیا

یہ بھی پڑھیں: ملائیشین ائیرلائنز کے لاپتہ جہاز کی گتھی نہ سلجھ سکی

جہاز کی تلاش کے دوران کیے گئے آپریشن کا ڈیٹا اور تفصیلات تین سال بعد اب منظر عام پر لائی گئی ہیں، جن کے مطابق ملبہ ڈھونڈنے کے لیے انتہائی جدید اور ایڈوانس ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے باوجود حکام کو ناکامی ملی۔

ڈیٹا کے مطابق شروعاتی طور پر آسٹریلین میری ٹائم سیفٹی اتھارٹی (اے ایم ایس اے) نے 18 مارچ سے 29 اپریل 2014 تک جہاز کے ملبے کی تلاش کا کام کیا۔

ادارے نے شروعاتی طور پر 47 لاکھ اسکوائر کلومیٹرز میں 21 طیاروں اور 19 بحری جہازوں کی مدد سے کھوجنا کی، اس دوران جہازوں کی مسلسل 345 پروازیں 3 ہزار 177 گھنٹوں تک جاری رہیں، جب کہ بحری جہازوں کی کارروائی میں 8 اقوام نے حصہ لیا۔

سمندر کا وہ حصہ جہاں آپریشن کیا گیا—فوٹو: جیو سائنس آسٹریلیا
سمندر کا وہ حصہ جہاں آپریشن کیا گیا—فوٹو: جیو سائنس آسٹریلیا

بعد ازاں ملائیشیا، چین اور آسٹریلوی حکومت نے 31 مارچ کو سہ ملکی آپریشن پر رضامندی ظاہر کی، جس کے تحت تینوں ممالک نے مشترکہ طور پر جہاز کا ملبہ ڈھونڈنے کا کام شروع کیا۔

مزید پڑھیں: جہاز کی تلاش کے لیے بڑا آپریشن

اس آپریشن کے لیے جوائنٹ ایجنسی کوآرڈینیشن سینٹر (جے اے سی سی) ترتیب دیا گیا، جس کے تحت سمندر کی تہ میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جہاز کی کھوجنا لگانے کے کام کا آغاز کیا گیا۔

جہاز کی تلاش کے لیے تینوں ممالک کی ٹیموں نے بیتھیمٹرک سروے شروع کیا، اس سروے میں جدید ٹیکنالوجی اور ہائی ریزولیشن کیمراؤں کے حامل آلات کو سمندر کی تہ میں اتارا گیا۔

پانی کے اندر جانے والی مشینوں کی مدد سے سمندر کی تہ کی میپنگ کرنے سمیت وہاں کی تصاویر لی گئیں، جنہیں بعد ازاں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تھری ڈی اور ہائی ریزولیشن کے ذریعے رنگین کیا گیا۔

ڈیٹا کے مطابق ملائیشین جہاز کی کھوجنا کے لیے استعمال کی گئی ٹیکنالوجی اور اس کے ذریعے حاصل کی گئی تصاویر کسی بھی ٹیکنالوجی سے 15 گنا زیادہ بہتر ہیں۔

یہ بھی پرھیں: جہاز آخر گیا کہاں؟

اس آپریشن کے ذریعے مجموعی طور پر 2 لاکھ 78 ہزار اسکوائر کلو میٹر تک سمندر کی تہ میں جاکر جہاز کی کھوجنا کی گئی، مگر ٹیم کو کوئی کامیابی نہیں ملی۔

ڈیٹا کے مطابق سمندر کی تہ میں 4 ہزار 700 میتر کی گہرائی تک ملبے کو ڈھونڈنے کا کام بھی کیا گیا، مگر جہاز کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔

ملبے کی تلاش میں ناکامی کے بعد بالآخر جنوری 2016 میں تینوں حکومتوں نے آُپریشن بند کرنے کا فیصلہ کیا، اور اعلان کیا کہ جہاز کا ملبہ نہیں مل سکا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن کیے جانے کے باوجود جہاز کا ملبہ کیوں نہیں مل پایا؟

کہیں بحر ہند کے اس حصے میں بھی برمودا ٹرائی اینگل جیسا کوئی پراسرار جزیرہ تو موجود نہیں؟

تبصرے (0) بند ہیں