واشنگٹن: امریکا کی سابق اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی ایشیا رابن رافیل کا کہنا ہے کہ پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے والے نئے افسران اپنے پیش رو افسران کے مقابلے میں دہشت گردی کو انتہائی حساس تصور کرتے ہیں۔

انہوں نے افغان سفیر کے ان دعوؤں کو مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاک فوج کے نئے افسران اپنے موجودہ کمانڈرز کے مقابلے میں دہشت گردی کی حمایت کرسکتے ہیں۔

کیلیفورنیا کے اسپن انسٹیٹوٹ میں افغانستان پر ہونے والے ایک ہفتہ طویل سیمینار، جو سیکیورٹی مسائل کے حوالے سے امریکا میں سب سے اعلیٰ فورم تصور کیا جاتا ہے، میں رابن رافیل نے کہا کہ واشنگٹن کی پالیسیز میں وضاحت کی کمی پاکستان کو حقانی نیٹ ورک سے اپنے رابطے توڑنے سے روک رہی ہے۔

ان سے قبل واشنگٹن میں افغانستان کے سفیر حماد اللہ محب نے سیمینار کے شرکاء سے بات کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کی مدد بند کریں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ’پاکستان ایک ایسی ریاست بننے جارہا ہے، جس کی خارجہ پالیسی میں دہشت گردی کی حمایت کرنا اہم عنصر ہے اور جو دہشت گردی پر یقین رکھتی ہے‘۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان فوج میں بھرتی ہونے والے نئے افسران دہشت گردی پر ایک نظریئے کے طور یقین رکھتے ہیں اور ایسے افسران جب ترقی حاصل کریں گے تو وہ دنیا کے لیے مزید مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر ہم پاکستان کو آزادی دے دیں، تو آپ ایسے وقت میں کشیدگی کا تصور کریں جب فوج 10 لاکھ تک پہنچ جائے گی، ان کے پاس جوہری ہتھیار ہوں گے، جدید انٹیلی جنس ہوگی جبکہ وہ شدت پسندی پر اس کی روح کے مطابق یقین رکھتے ہوں گے'۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی سول قیادت کے ساتھ کام کریں تاکہ فوج پر نظر رکھی جاسکے۔

خیال رہے کہ پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے واشنگٹن میں ایک سیمینار کے دوران ان پر آوازیں کسنے اور ان کا تمخسر اڑائے جانے کے بعد کسی بھی سیمینار میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد رابن رافیل ہی وہ واحد شخصیت تھیں جو بظاہر پاکستان کے دوست کے طور پر سیمینار میں موجود تھیں۔

انہوں نے افغان سفیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان ’کچھ گمراہ کن‘ اور غلط ہے۔

رابن رافیل، جو پاکستان کی پرانی دوست تصور کی جاتی ہیں اور گذشتہ سال انہیں اسلام آباد سے مبینہ رابطے کے حوالے سے ایف بی آئی کی ایک انکوئری کا سامنا بھی تھا، نے افغان سفیر کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ ’دہشت گردی اور پاکستان مساوی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو افغانستان میں جاری پراکسی وار کا حصہ ہیں، یہ واضح ہونا چاہیے کہ جب تک تنازع کے باعث غیر یقینی کی صورت حال رہے گی اُس وقت تک پراکسی جاری رہے گی۔

رابن رافیل نے نشاندہی کی کہ رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان کے دورے کے دوران سینیٹر جان میک کین نے اسلام آباد سے مزید اقدامات کرنے کو کہا تھا جس کے جواب میں پاکستان نے کہا کہ وہ امریکا کی مجموعی پالیسی کا انتظار کررہے ہیں۔


یہ رپورٹ 24 جولائی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں