رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

سال 2009 میں عراق بُری طرح ٹوٹ پھوٹ اور لوٹ کا شکار تھا اور عجائب گھروں اور کھدائیوں سے ملنے والے نوادرات اُن ہاتھوں میں تھے جن میں اُنہیں نہیں ہونا چاہیے تھا. اِس دوران ایک امریکی کمپنی بھی نوادرات کی تلاش میں سرگرداں تھی۔

چینی ساختہ اشیاء اور آرٹ کے نمونے فروخت کرنے والے ایک بڑے اسٹورز کی لڑی 'ہابی لابی' کو نوادرات کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنے مجوزہ 'بائبل میوزیم' کو سجا سکے۔

اِس کام کے لیے اُنہیں بائبل سے تعلق رکھنے والے نوادرات، تختیوں، ٹائلوں اور کسی بھی ایسی چیز کی تلاش تھی جو عیسائی مذہب کی پیدائشی سرزمین سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ سرزمین اب مسلمان اور جنگ زدہ عراق کی حد میں آتی ہیں اور جہاں طلب ہوتی ہے، وہاں رسد بھی دستیاب ہو ہی جاتی ہے۔ اِسی دوران امارات کے آرٹ ڈیلرز کے پاس عراقی نوادرات کا ایک بڑا ذخیرہ فروخت کے لیے دستیاب تھا۔ اِن میں ہزاروں سال قدیم نوادرات شامل تھے اور بالکل ویسے جو ہابی لابی جیسے خریدار کی توجہ حاصل کرسکتے تھے، پرانے مسوّدے اور ٹائلیں، جو کمپنی کے مجوزہ بائبل میوزیم کے لیے بالکل درست انتخاب ثابت ہوتے۔

کمپنی چوں کہ امریکی قوانین کے تابع تھی، اِس لیے اُس نے 2010 میں کلچرل پراپرٹی کے ایک ماہر کی خدمات حاصل کیں تاکہ اماراتی ڈیلرز سے ایسے نوادرات کی خریداری کی قانونی حیثیت معلوم کی جاسکے۔ اِس ماہر نے ہابی لابی کے منتظمین کو بتایا کہ جب تک اِن نوادرات پر 'عراقی الاصل' ہونے کے لیبل نہیں لگائے جائیں گے (جہاں لوٹ مار ہوئی تھی)، تب تک اُنہیں امریکا لانا غیر قانونی ہوگا اور غلط لیبلنگ سنگین قانونی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔

بائبل میں متذکرہ قدیم اقوام سے تعلق رکھنے والے نوادرات کے حصول کی چاہ میں ہابی لابی نے ماہر کا مشورہ نظرانداز کردیا اور اپنے بائبل میوزیم کے لیے نوادرات کا ڈھیر خرید لیا۔ امریکا لائے جانے کے لیے اِن 3 ہزار سے زائد نوادرات پر 'سیرامکس' اور 'سیمپلز' کے گمراہ کن لیبل لگائے گئے۔

اِن پر سے مزید توجہ ہٹانے کے لیے اِن پر منزل کا پتہ ہابی لابی کے امریکا بھر میں مختلف اسٹورز کا لکھا گیا تاکہ اُنہیں بس اسٹور میں رکھنے کا سیمپل قرار دیا جاسکے۔

مگر امریکی کسٹمز حکام اِس جھانسے میں نہیں آنے والے تھے۔ تمام ڈبے قبضے میں لے لیے گئے اور ہابی لابی پر امریکی محکمہءِ انصاف نے مقدمہ کردیا۔ ہابی لابی 30 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرنے اور میوزیم کے لیے خریدے گئے تمام نوادرات سے دستبردار ہونے پر رضامند ہوگئی۔

ہابی لابی کے معاملے میں تو شاید انصاف ہوگیا ہو مگر جرمانے اور دستبرداری ان پیچیدگیوں کو چھپا دیتے ہیں کہ اِن نوادرات کا مالک کون ہے اور یہ کہ مغربی دنیا کے عجائب گھروں میں رکھے گئے زیادہ تر نوادرات آرٹ ہیں یا لوٹ (چوری شدہ مال) ہیں۔

برصغیر سے تعلق رکھنے والے نوادرات بھی لوٹ مار کا شکار ہوئے ہیں۔ کئی مغل آرٹ نمونے اور مسوّدے جو دنیا کے کئی عجائب گھروں کی زینت ہیں، اُن کی تاریخِ خریداری بالکل تقسیمِ ہند کے آس پاس کی ہے۔

لٹیرے آج عراق اور شام میں جس عدم استحکام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہی فائدہ اُنہوں نے برِصغیر کی تقسیم کے وقت بھی اُٹھایا تھا۔

اکبر نامہ کے اصل صفحات کی تلاش کریں گے تو آپ کو کئی اصل صفحات نمائش کے لیے رکھے ہوئے ملیں گے، مگر برِصغیر کے شہروں میں نہیں، بلکہ وسط مغربی امریکا کے تعلیمی اداروں میں، پینسلوانیا کے یونیورسٹی میوزیم میں اور ایسی دوسری جگہوں پر جہاں کے امراء نے تاریخ خرید کر عوام کے دیکھنے کے لیے رکھ دی ہے۔

مگر اسی دوران اگر آپ برِصغیر یا مشرقِ وسطیٰ کے عجائب گھروں کا دورہ کریں گے تو آپ کو خالی شیلف، گرد آلود میزیں اور بے ترتیب بکھری ہوئی چیزیں نظر آئیں گی، وہ بھی تب جب وہ چیزیں وہاں موجود ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ اسٹاف کے کسی ممبر سے بات کریں تو آپ جانیں گے فلاں چیز یا تو ٹوٹ گئی یا پھر کوئی پرانا ڈائریکٹر یا موجودہ ڈائریکٹر یا بیچ میں موجود کوئی ڈائریکٹر اپنے گھر لے گیا تھا۔

اگر کچھ ڈیلر ہابی لابی کو عراقی نوادرات فروخت کرنے پر رضامند تھے، تو پشاور اور لاہور کے ایسے ہی ڈیلر یہی کام کرنے کو بہت کم پیسوں میں رضامند ہوں گے۔ کئی لوگ اُن سے خریدنے کے لیے تیار ہوتے ہیں؛ پاکستان میں کئی امیروں کے گھرانوں میں آپ کو ایسے انمول نوادرات موجود ملیں گے جو افراد کی ملکیت اور اُن کے گھروں میں مقید نہیں بلکہ عوام کے سامنے ہونے چاہیے، جو اُنہیں دیکھ سکیں، لطف اُٹھاسکیں اور اُن سے سیکھ سکیں۔

مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ نتیجتاً مغربی دنیا کے عجائب گھروں میں موجود زیادہ تر آرٹ (یا لوٹ) کی خریداری کو جائز قرار دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیوںکہ اُنہیں محفوظ حالت میں رکھنا یہ دلیل ہے کہ اُنہیں 'بچا' لیا گیا ہے۔ اِس بات میں سچائی بھی ہے: فروخت کنندگان اور لٹیرے کبھی نوآبادیاتی حکومتیں تھیں، مگر اب کافی عرصے سے مقامی افراد بھی پیسے کمانے کے لیے اِس کام میں اُتر پڑے ہیں۔

حالیہ دنوں میں لوٹ مار کی شکار ہوچکی جگہوں پر کوئی تاریخ باقی نہیں رہی ہے۔ افغانستان، عراق، پاکستان اور شام کے عوام کو نوآبادیاتی دور کے بعد کی الجھنوں نے اپنی تاریخ سے اِس قدر ہٹا دیا ہے کہ اِنہیں اپنے اوپر ہونے والی کاٹ پیٹ تو قدرتی، اہم اور ضروری محسوس ہوتی ہے مگر اِنہیں یہ معلوم نہیں کہ اِن کی موجودہ شناخت کتنے اہم اور ضروری انداز میں اِن سے پہلے گزر چکے لوگوں سے منسلک ہے۔ تاریخ کے بغیر اور اندھے یقین کے ساتھ وہ چلتے رہتے ہیں اور ماضی کی غلطیاں اِسی جوش و جذبے کے ساتھ دہراتے رہتے ہیں جیسے کہ پہلی دفعہ ہو۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں