پشاور: وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے 2014 میں منظوری کے باوجود ابھی تک صوبائی حکومت کی جانب سے اونکولوجی سینٹر اور ہسپتال (کینسر ہسپتال) کی تعمیر کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے جا سکے۔

صوبے میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر صوبائی حکومت نے تین سال قبل 25 کروڑ روپے مختص کرنے کی منظوری دی تھی لیکن اب بھی حیات آباد میڈیکل کمپلیکس (ایچ ایم سی) کے اونکولوجی وارڈ میں کینسر کے مریضوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔

ایچ ایم سی میں 2006 میں 20 بستروں پر مشتمل ایک وارڈ قائم کیا گیا تھا جہاں تقریباً 2 ہزار افراد سالانہ علاج کے لیے داخل ہوتے ہیں، لیکن لوگوں میں مختلف قسم کی بڑھتی ہوئی بیماریوں اور ان کے مکمل علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کرانے کی ضرورت ہے۔

1999 میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں اونکولوجی کا پہلا وارڈ قائم کیا گیا تھا جسے 2006 میں ایچ ایم سی منتقل کیا گیا تھا اور تب سے ہی اسے مزید توسیع دینے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: اینٹی بایوٹیکس کا زیادہ استعمال کینسر کا خطرہ بڑھائے

اسی منصوبے کے تحت ایچ ایم سی نے نئے اونکولوجی سینٹر کی تعمیر اور یہاں پر مریضوں کے لیے بستروں کی تعداد 40 تک کرنے کی منظوری دے دی تھی جس میں مہلک مرض میں مبتلا افراد کے لیے 28 بستروں پر مشتمل ہسپتال بھی شامل ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مجودہ ہسپتال پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہوگا، جہاں لاعلاج افراد کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لیے ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔

اس وقت مریضوں کو مخصوص وارڈ نہ ملنے کی وجہ سے میڈیکل وارڈ میں منتقل کردیا جاتا ہے اور جب مخصوص وارڈ میں بستر موجود ہوتا ہے تو انہیں واپس یہاں لایا جاتا ہے۔

ایچ ایم سی میں اونکولوجی وارڈ کے سربراہ پروفیسر عابد جمیل نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے ایچ ایم سی میں اونکولوجی سینٹر قائم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا کیونکہ ایچ ایم سی میں ایم آر آئی، سی ٹی اسکین اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کینسر کی 12 علامات جنھیں نظرانداز نہ کریں

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اونکولوجی سروس کو صوبے بھر میں پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ بیماری کے پہلے مرحلے میں موجود مریضوں کا ان کے اپنے ضلع میں علاج کیا جاسکے'۔

انہوں نے بتایا کہ کینسر کے مریضوں کے لیے دو قسم کے پروگرام ہیں، ایک بلڈ کینسر کے مریضوں کے لیے جس میں 1 ہزار 8 سو 50 مریض زیر علاج ہیں جبکہ دوسرے پروگرام میں دیگر 750 مریض زیر علاج ہیں۔

پروفیسر عابد جمیل نے بتایا کہ ان کے پاس ایک روز کے لیے آنے والے مریضوں کے لیے 7 بستر موجود ہیں جنہیں کیموتھراپی کے بعد واپس گھر بھیج دیا جاتا ہے جبکہ دیگر مریضوں کو ان کی مرضی کے مطابق سہولیات دینے کے لیے مزید بستروں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے آگاہ کیا کہ صوبے میں ہر سال کینسر کے مریضوں کی تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوتا ہے جن میں 20 فیصد تعداد بچوں کی ہے جن کا علاج ممکن ہوتا ہے لیکن ہسپتال کے پاس ان کے علاج کے لیے سہولیات محدود ہیں۔

اونکولوجی وارڈ کے سربراہ نے بتایا کہ 65 فیصد مریض بلڈ کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں جن کہ وجوہات معلوم نہیں ہو سکیں۔


یہ خبر 14 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں